وفاقی حکومت نے 16 ہزار سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

0
351

کراچی (مدثر غفور) 16 ہزار برطرف سرکاری ملازمین کا اہل خانہ کے ہمراہ احتجاج رنگ لے آیا۔ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ مثیر عالم کے 16 ہزار سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔

اس سے قبل مختلف اداروں کے برطرف چند ملازمین نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تاہم اب باقاعدہ طور پر وفاقی حکومت نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے توسط سے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی آئینی درخواست بھی جمع کروا دی ہے۔

آئینی درخواست میں اٹارنی جنرل آف پاکستان نے تین اعتراضات اُٹھائے ہیں جن میں کسی بھی قانون کو کلعدم قرار دینے سے  پہلے حکومت کے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے اس کی طرف سے رائے لی جاتی ہے اس کے بعد کوئی حتمی فیصلہ دیا جاتا ہے۔ مگر سپریم کورٹ نے اس کیس میں جو 20 ماہ سے فیصلہ محفوظ رہا، اس فیصلے میں آئینی حیثیت میں اٹارنی جنرل کو سنا ہی نہیں گیا اور فیصلہ دے دیا گیا۔ اس لئے اس میں نظر ثانی کی جائے۔

دوسرے اعتراض میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے دائر کی گئی ہے جس میں پہلا اعتراض ہے کہ اٹارنی جنرل کو سنا نہیں گیا اور دوسرا اعتراض کہ چند درجن ملازمین کو سنا گیا جو اپیرنٹ ہوئے باقی 16 ملازمین کو تو معلوم بھی نہیں تھا کہ یہ کیس چل رہا ہے وہ گھر بیٹھے اس قانون کے کلعدم ہونے کی وجہ سے ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس لئے سپریم کورٹ نے اس اصول کی بھی خلاف ورزی کی ہے کہ 16 ہزار ملازمین کو سنے بغیر فیصلہ سُنا دیا۔

تیسرے اعتراض میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جس قانون کو آئین سے متصادم قرار دیا اس میں یہ وجہ بتائی تھی کہ سول سرونٹس کی مخصوص شرائط ہوتی ہیں جن میں یہ ملازمین اُن سول سرونٹس کے شرائط پر پورا نہیں اُترے۔ جو بھرتی کا طریقہ کار تھا، سول سرونٹس کے حقوق اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ سینیارٹی اور مراعات کے حوالے سے وہ قانون کالعدم ہوا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہزاروں ملازمین ایسے ہیں جو سول سرونٹس کے زمرے میں آتے ہی نہیں ہیں کیونکہ وہ نیم سرکاری اور خود مختار ادارے کے ملازمین تھے جو بحال ہوئے تھے تو اُن ملازمین کا سول سرونٹس کے ساتھ موانہ کرکے نوکری سے محروم کرنا یہ بھی سپریم کورٹ کا غلط اقدام تھا۔

آج مختصر اعتراض اُٹھانے کے بعد سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو دو ہفتے کا مذید ٹائم دیتے ہوئے تفصیلی نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کا وقت دے دیا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں