تحریر: رابعہ خان
آزادی پاکستان، پاکستان آزاد ہونے کی مناسبت سے ملک بھر میں جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ 14 اگست کا دن منانے کا مقصد محض اپنے بڑوں کی عظیم قربانیوں کی داستان یاد کرنا ہے کہ کس طرح انہوں نے انتھک محنت کی اور اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے برصغیر پاک و ہند کے اس خطے میں ایک علحیدہ اسلامی فلاحی ریاست کی لکیر کھینچی جسے پاکستان کا نام دیا گیا۔ 14 اگست انہیں کی یاد دلاتا ہے کہ ہم آج ایک آزاد فضا میں کھلی سانس لے رہے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے اپنی کاوشوں سے آنے والی نسلوں کے لئے ہی ایک علحیدہ اور آزاد ریاست کا نقشہ کھینچا تھا تاکہ آنے والی نسلیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد رہیں۔
مملکت خدا داد پاکستان کی آزادی کا دن منانے کا مقصد ہمیں غلامی سے آزاد ہونے کی یاد دلاتا ہے۔ 14 اگست 1947 کو تاریخ پاکستان کی ابتدا کا دن تھا کہ انگلستان کی غلامی سے نجات پاکر معروض وجود میں آیا تب سے سرکاری سطح پر 14 اگست کو بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔
ملی نغمے گائے جاتے ہیں
پریڈ کا انتظام کیا جاتا ہے
قومی ترانے پڑھے جاتے ہیں
تقریر و تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے
تفریحی و ثقافتی کھیل کئے جاتے ہیں۔
اسی طرح سے وطن کے جان نثاروں کو یاد کیا جاتا ہے ان کی یادگاروں پر پھول چڑھائے جاتے ہیں دعا و فاتح خانی کا احتمام کیا جاتا ہے۔ ریلیاں نکالی جاتیں ہیں اور سب مسلم، ہندو، عیسائی ہر قوم و ہر نسل کے لوگ ایک پرچم سائے تلے شکر گزاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ملکی جانثاروں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ملک بھر کے سرکاری و نجی اداروں میں قومی پرچم لہرایا جاتا ہے اور پرچم کے سائے تلے سب یک جان قومی ترانہ پڑھتے ہیں۔ یہ سبز ہلالی پرچم پوری آب و تاب سے بلندی کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔
پاکستان کب اور کیسے وجود میں آیا؟ اس بات کا تو با خوبی علم ہوگا کہ 14 اگست 1947 کو 27 رمضان المبارک کے مہینے کی ستائیسویں شب کو رات 12 بجے فضا میں یہ اعلان گونجا کہ برصغیر کی ایک آزاد و خودمختار ریاست وجود میں آئی ہے۔
اس اعلان کا انگلش میں مسٹر ظہور آذر اور مصطفٰی علی ہمدانی کو اردو میں ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ اعلان ریڈیو پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس پر نشر ہوا۔ اعلان کے نشر ہوتے ہی مولانا ظاہر القاسمی کی آواز میں تلاوت قرآن مجید ہوئی اور تلاوت کلام پاک کے فوراً بعد سے ہی خواجہ خورشید انور کا مرتب کردہ ریڈیو پاکستان کا آرکسٹر بجایا گیا۔ اعلامہ اقبال کی ایک خوبصورت نظم پیش کی گئی جو کہ سنتو اور ان کے ہم نواؤں نے قوالی کی صورت پیش کی۔ جو کچھ اس طرح تھی۔
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پر اکسانے لگا میرا مرغ چمن!
ایک وقت یہ شعر علامہ اقبال نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے کہا تھا۔
پاکستان کا قومی ترانہ حفیظ جالندھری کی تخلیق ہے جو ریڈیو پاکستان میں پہلی بار حفیظ جالندھری کی آواز میں نشر ہوا اس ترانے کو انہیں لکھنے میں چھ ماہ لگے اور تین ماہ مسلسل ایک ایک لفظ پر غور کیا گیا۔ اور پھر جاکے پاکستان کا قومی ترانہ پیش کیا گیا۔
14 اگست یعنی یوم آزادی کا دن منا کر نوجوانوں کی روح کو دبارہ سے کو بیدار کرنا انہیں یہ سبق و پیغام دینا کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح کی تعلیمات اور آزاد روح کے مطابق پاکستان کی تشکیل نو کی جدو جہد جاری رکھیں اور بلا امتیاز ظلم و ستم، غلامی کی زنجیروں سے نکل کر آزاد روح کو بازیاب کرنے کا آغاز کریں۔ آج پاکستان آزاد ہوئے کو 76 برس بیت گئے مگر وہی ظلم و ستم، وہی غلامی، وہی مذہب پرست اور امیر و غریب کا اسٹیٹس، بس اب فرق محض اتنا کہ تب ہم غیروں یعنی انگریزوں و ہندوئوں کی غلامی تلے تھے اور آج اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں زنجیروں سے جھگڑے ہیں۔ جہان وطن سے وفا کرنے والے کو نظر بند کر دیا جاتا ہے، جہان حق و سچ کی راہ پر جلنے اور حق کے لئے بات کرنے والے کو جلا وطن کر دیا جاتا ہے یا پھر موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے ایسا ہے تیرا دیس اے قائد اب۔
قائد اعظم نے اس وقت اپنی قوم کو بیدار ہونے اور ملکی خیر سگالی، بھائی چارہ، دوستی اور امن و امان کا پیغام دیا تھا اور وہی آزاد روح تھا مگر اس وقت پاکستان اپنی سرحدی گمشدگی پیش کرتا نظر آرہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی روح کو قید کرنے والا کون؟ قائدہ اعظم نے 15 اگست 1947 کو ریڈیو پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کی ایک افتتاحی تقریب پر قوم کے نام ایک پیغام سنایا کہ نئی نت مملکت ہے اور تخلیق کی بدولت وطن عزیز پر ایک زبردست قسم کی زمیداری آن پڑی ہے اور آپ سب پاکستانیوں کو اب یہ موقع ملا ہے کہ وہ اس نئی مملکت میں امن و امان سے رہیں۔ ذات پات، عقیدہ ان سب کا فرق کئے بغیر اپنے ملکی شہریوں کے لئے بلا مفاد کام کر سکتی ہے۔ لیکن قائد نے کبھی سوچا نہ ہوگا کہ ان کی یہ ریاست آج بھی غلامی کی نظر ہے۔ ہر عقیدہ غیر محفوظ حتیٰ کہ کلمہ گو امت مسلمہ ہی ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہی ہے۔ اس کا ذمہ دار کون؟ ان سب کی زمہ دار ہم خود ہیں۔ اگر ایک نظر دیکھا جائے تو ریاست پاکستان ہر طرف سے ہر لحاظ سے دشمن کی یلغار ہے۔ استعماری قوتیں ہماری پاک ریاست کو کمزور کر رہی ہیں۔ اور انہیں یہ موقع ہم خود دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک بھر میں قومیت، لسانیت اور فرقہ ورانہ روایات کو فروغ مل رہا ہے۔ جس سے پورے ملک میں انتشار، دنگا فساد، خوف، بدامنی اور افراتفری کی فضا بلند ہو رہی ہے۔ آج 14 اگست کے موقع پر ہمیں پھر یہ عہد کرنا ہوگا ہمیں مل کر اپنا وطن بچانا ہوگا کیونکہ یہ ہمارا وطن ہے یہاں سب حقوق برابر کے ہیں۔