تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمان
سیاست، معیشیت، سینما، انٹرٹینمنٹ یہ سب کہانیاں ہیں۔ ان کہانیوں کا مرکزی خیال تقریبا ایک جیسا ہے صرف کردار بدلتے ہیں۔ یہ دہائیوں سے چلتا ہوا آرہا نظام ہے بجٹ بھی وہی گھسی پٹی کہانی ہے جسے ہر سال شور شرابے میں مختلف کردار ایک ہی طرح کے مرکزی خیال کے گرد بنتے ہیں۔
اس معاشی گن چکر کا نہ تو کوئی سر پیر ہوتا ہے اور نہ ہی غریب کی زندگیوں پر کوئی اثر۔ ملک کی 70 فیصد آبادی پرائیویٹ سیکٹر میں ہے۔ ان کا بجٹ میں سرے سے ذکر ہی نہیں ہوتا۔ جو سیلز مین بیس ہزار پر کام کر رہا ہے وہ بیس ہزار پر ہی کام کرتا رہے گا۔ پرانے زمانے میں فصل پر انگریز لگان لیتا تھا اب اسے ٹیکس کہتے ہیں۔ ہندو بنیا سود پر قرض دیتا تھا اب بینک وہی کام کرتے ہیں۔
موجودہ سال کے بجٹ میں یہ نوید بھی سنائی گئی ہے کہ ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہوچکی ہے اور پچھلے سال اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو وہ آئندہ سال دور ہوجائے گی۔ یہ بجٹ سے زیادہ کوئی افسانہ سا نظر آتا ہے جس میں ریلیف دینے کی بجائے روشن مستقبل کی نوید سنائی گئی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے یہ نہیں بتایا کہ جب تک معاشی حالات بہتر نہیں ہوتے ‘غریب عوام’ تب تک کیا کرے۔ سمت کا درست ہونا خوشخبری ہے لیکن
‘خالی پیٹ’ پیدل قافلے کا اس راستے پر چلنا مشکل ہو گا۔
سرکاری ملازم ریاست کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثییت رکھتا ہے۔ ہماری یہ ریڑھ کی ہڈی کیونکہ کمزور ہے اس لئے رشوت کے سہارے چلتی ہے۔ اور یہیں سے سارے معاملات خراب ہوتے ہیں۔ اگر سرکار رشوت لے گی تو معاشرہ رشوت دے گا۔ حکومت سب سے پہلے بجٹ میں ریڑھ کی ہڈی توڑتی ہے۔ دوسرا طبقہ مزدور طبقہ ہے۔ چائے میں چینی، روٹی اور سالن غریب آدمی کی کمزوری ہے اور ملک کے سارے کارٹل ان تین چیزوں سے منافع کما رہے ہیں۔ گندم زیادہ ہو تو خریدتے نہیں اور کم ہو تو باہر سے منگوا لیتے ہیں۔ اس بے دردی سے تو جنگل میں شیر بھی شکار نہیں کرتا۔ شیر اپنے شکار کو شہ رگ سے دبوچتا ہے تاکہ شکار کو تکلیف کم ہو۔ زندہ شکار کی چمڑی صرف اشرافیہ اتار سکتی ہے۔ کسی اور میں اتنا حوصلہ کہاں۔
بڑی پنشن پر 5 فیصد ٹیکس، امپورٹڈ سولر پینلز پر 18فیصد ٹیکس، بجلی کے بلوں پر ڈیبٹ سروسنگ سرچارج متعارف کرایا گیا ہے۔ مذکورہ سرچارج کا مقصد قرض کے سود اور اصل زر کی ادائیگی کا سامان کرنا ہے، یعنی پرانے دور کے غلط سیاسی فیصلوں کا حساب عام آدمی سے لیا جائے گا۔ حضور یہ ایکسپلوئٹیٹو نظام ہے۔
اعلیٰ تعلیم کا بجٹ 65 ارب سے گھٹا کر 39.5 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ انتہائی حیران کن فیصلہ ہے۔حکومتی اخراجات میں کمی کی بجائے تعلیم کے شعبے میں ‘کٹ’ ماری گئی ہےہ یہ کٹ نہیں، ہماری مت ماری گئی ہے۔
اگر ہمت ہے تو معاشرے کے تینوں طبقوں، اشرافیہ، متوسط طبقہ اور غرباء کی اوسط آمدنی علیحدہ علیحدہ بتائیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں پر ایک فیصد سے بھی کم خرچ ہورہا ہے۔ شاید کوئی دور اندیشی ہوگی۔ زبانی جمع خرچ زندہ باد۔