تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمان
ڈسکورس، انداز بیاں کو کہتے ہیں۔ ہر ریاست، سیاسی جماعت، ادارے یا گروہ کا ایک اندازہ بیان ہوتا ہے اور یہ اندازہ بیاں ہی اس ریاست، سیاسی جماعت، ادارے یا شخص کی پہچان ہوتا ہے۔ اگر کسی ملک، سیاسی جماعث کا ڈسکورس موثر نہیں تو اس کی پہچان بھی کمزور ہوگی۔ انداز بیاں دراصل سوچ کی عکاسی ہے۔ ریاست کی ترقی کے لئے، ریاست کا انداز بیاں کا موثر ہونا ضروری ہے۔ ملکی قیادت اور حکومتی مشینری کا انداز بیاں ہی ریاست کا بیانیہ ہوتا ہے۔
میڈیا میں کس خبر کو کتنی اہمیت دینی ہے، اس کا فیصلہ ایڈیٹر کی صوابدید ہے۔ ناظرین اور قاری کی خبروں کی اہمیت کے حوالے سے ترجیح لگ بھگ وہی ہوگی جو ٹی وی یا اخبار کی ہے۔ یعنی میڈیا بتاتا ہے کہ کیا اہم ہے کیا نہیں۔ اسے ایجنڈا سیٹنگ کہتے ہیں۔ خبر کو ایک خاص رنگ یا زاویے سے لکھا جاتا ہے، یہ فریمنگ ہے۔ ناظرین اور قاری کو یہ بتایا جاتا ہے کہ خبر کو پڑھ کر، سوچنا کیسے ہے۔ اب میٹا فور استعمال ہو رہے ہیں۔ میٹا فور کے استعمال سے کسی شخص یا چیز کو مختلف معنی پہنا دیئے جاتے ہیں۔ میٹافور ‘ناریل’ کی طرح ہے۔ جب پک جائے تو توڑنا بہت مشکل ہے۔
سیاسی بیانات اور تقاریر میٹا فورز کے بغیر پھیکی لگتی ہیں۔ میٹافور کی بہت اقسام ہیں۔ پاکستانی سیاست میں بیٹل میٹا فور کا استعمال ماضی قریب میں ووٹرز کو اشتعال دلانے کے لئے کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ جس کے اثرات سوشل میڈیا پر نظر آ رہے ہیں۔ ڈیڈ میٹافورز کا استعمال بھی بہت خطرناک ہے۔ یہ عام الفاظ ہوتے ہیں لیکن گہرے معنی کے ساتھ، جیسا کہ ‘مجرموں کا ٹولہ’ جو حکومت میں ہے۔ ‘کرپٹ مافیا’ جو پاکستان پر قابض ہے۔ ان دونوں میٹا فورز کا اکٹھے استعمال سیاسی بھونچال پیدا کرتا ہے اور جس کا عملی مظاہرہ ہم دیکھ رہے ہیں۔
‘لوٹا’ کا میٹا فور، اپنے اندر ایک پوری کہانی سمیٹے ہوئے ہے۔ لوٹوں کو انگریزی میں ’ ٹرن کوٹ’ کہتے ہیں۔ میٹافور پوری پوری داستان کے امین ہوتے ہیں۔ ‘چمچہ’ ایک خاصیت بن چکی ہے۔
اردو میں جگت بازی کے لئے استعمال ہونے والے اکثر میٹا فور، باورچی خانے سے نکل کر سامنے آئے، ‘تھلے لگ جانا’، ڈوئی پھرنا’۔ ‘بریانی’ تو باقاعدہ اب ایک سیاسی چال بن چکی ہے۔ کسی بھی زبان میں میٹافور کا استعمال تحریر کو ‘چار چاند’ لگا دیتا ہے۔ ‘چچا چھکن’ امتیاز علی تاج کی کہانی کا کردار، کسی الجھی ہوئی شخصیت کی عکاسی کے لئے استعمال ہونے والا میٹا فور اپنی مثال آپ ہے۔
جرمن کہاوت ہے کہ ‘اندھوں کے لیڈر بھی اندھے ہوتے ہیں اور چینی کہاوت ہے ‘اندھیرے پر لعنت بھیجنے سے شمع روشن کرنا بہتر ہے’۔
سارا دن مہنگائی کے حق میں دلیلیں دینے والوں کے لئے، اردنی کہاوت ‘پیٹ کے ساتھ بحث کرنا فضول ہے، کیونکہ اس کے کان نہیں ہوتے’۔
لہذا ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ وطن عزیز کا انداز بیاں جنگ وجدل اور اشتعال انگیز ہے، نہ کہ بامقصد اور فکر انگیز۔ اس سلسلے میں سیاسی قیادت کو ضرور سوچنا چاہیے۔