تحریر: نثار حسین
توانائی جتنی سستی اور وافر مقدار میں دستیاب ہو گی انڈسٹری کا پہیہ اسی تیزی سے گھومے گا۔ بجلی پیدا کرنے کے لئے ٹربائن گھومتی ہے لہٰذا ٹربائینز جتنی زیادہ اور تیزی سے گھومیں گی اتنی زیادہ بجلی میسر آئے گی تاہم یہ ٹربائین اگر تیل اور گیس سے چلیں گی تو یقیناً مہنگی بجلی پیدا ہوگی اگر یہ پانی اور ہوا سے چلیں گی اور وہ بھی جن کے لیے کوئی معاوضہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں تو بجلی بہت سستی ملے گی۔ وطن عزیز میں گیس کی شدید قلت ہے اور تیل بھاری زرِمبادلہ کے عوص امپورٹ کرنا پڑتا ہے، کوئلہ بھی مہنگا ہے اور یہ سب ماحول دوست بھی نہیں تو پھر ہمیں سستی اور ماحول دوست توانائی کے حصول کی جانب قدم بڑھانا ہوگا اور اسے ترجیح دینا ہوگی۔ اس وقت پانی سے پیدا ہونے والی بجلی 6 روپے فی یونٹ سے کم اور تھرمل بجلی گھروں سے پیدا ہونیوالی بجلی پر 20 روپے فی یونٹ لاگت آ رہی ہے۔
گزرے وقتوں کی بات ہے جب بجلی کی کل ملکی پیداوار میں پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کا 60 فیصد حصہ تھا جو اب کم ہوکر 1/3 رہ گیا ہے، پاکستان میں قابلِ تجدید توانائی جیسا کہ پن بجلی، شمسی توانائی اور ونڈ انرجی کا بہت پوٹینشل موجود ہے۔ قدرت نے گلگت بلتستان، کے پی کے، آزاد کشمیر اور بلوچستان میں ہزاروں ایسے مقامات سے نوازا ہے جہاں میگا پراجیکٹس کیساتھ کم لاگت والےقلیل المدتی منصوبے شروع کئے جا سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پانی سے 45 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر نے کی گنجائش ہے۔ تربیلا ڈیم کے بعد پن بجلی کا کوئی میگا پراجیکٹ تعمیر نہیں گیا گیا، دریائے سندھ پر غازی بروتھا اور دریائے جہلم پر نیلم جہلم ہائیڈل پاور پراجیکٹ مکمل کئے گئے۔ غازی بروتھا سے 8 برسوں میں 53 ارب یونٹ بجلی فراہم کی گئی جس سے قومی خزانے کو 2 کھرب 26 ارب روپے کی بچت ہوئی۔ نجی شعبے میں 84 میگاواٹ بجلی کرنے کی صلاحیت کا حامل حبکو پاور پراجیکٹ 40 مہینوں میں مکمل کیا گیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ سرمایہ کار پن بجلی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔
چین اقتصادی راہداری معایدہ کے تحت وادی کاغان میں روکی کناری کے مقام پر ایک بڑا منصوبہ زیر تعمیر ہے، یہ پاک چین اقتصادی راہداری کے اولین منصوبوں میں شامل ہے۔ بی او ٹی کی بنیاد پر تعمیر کئے جانے والے اس منصوبے پر ایک ارب 96 کروڑ 20 لاکھ ڈالر لاگت آئے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تھرمل پاور پراجیکٹس کے مالکان پن بجلی کے منصوبوں میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔
وقت کم اور مقابلہ سخت کے مصداق نگران وزیراعظم قابل تجدید توانائی کے جاری اور نئے منصوبوں کے لئے ون ونڈو کی سہولت شروع کر رہے ہیں۔ ملک میں ونڈ اور شمسی توانائی پیدا کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے تاہم قابل تجدید توانائی کے ان منصوبوں کی رفتار کو تیز کرنے اور ایک فنانسنگ میکنزم کی ضرورت ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ آئندہ 7 برسوں میں بجلی کی کل پیداوار میں پن بجلی، و نڈ اور شمسی توانائی کا کم از کم 60 فیصد حصہ ہوگا۔ شمسی توانائی سستی بجلی کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔ پاکستان کا موسم شمسی توانائی کے لئے موزوں ترین ہے کیوں کہ ملک کے اکثر حصوں میں دھوپ رہتی ہے اور انفرادی طور پر کوئی بھی اپنی ضرورت کے مطابق سستی بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ شمسی توانائی کے ملکی سطح کے منصوبوں کو کم لاگت سے قلیل مدت میں مکمل کیا جا سکتا ہے۔
آلٹرنیٹو انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ کے مطابق، اس وقت 430 میگاواٹ شمسی توانائی نیشنل گرڈ میں شامل کی جارہی ہے جس میں سے 400 میگاواٹ قائد اعظم سولر پارک سے حاصل کی جا رہی ہے جبکہ 30 میگاواٹ بجلی 2 چھوٹے منصوبوں سے حاصل ہو رہی ہے۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی بھی 100میگاواٹ بجلی پیدا کر رہی ہے جو نیشنل گرڈ میں شامل نہیں کی جا رہی۔
پاکستان میں موجود شمسی توانائی کے پوٹینشل کے صرف 0.07 کو استعمال میں لا کر ملکی توانائی کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔ پاکستان میں سولر انرجی کو فروغ دے کر توانائی کا بحران ختم کیا جاسکتا ہے۔ توانائی کے شعبے کے ماہرین نے قابل تجدید ذرائع سے سستی بجلی پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے جس میں شمسی توانائی اور ونڈ انرجی شامل ہے۔ سابق حکومت نے 10 ہزار میگاواٹ شمسی توانائی پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن ابھی تک اس شعبے میں خاطر کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ گھریلو اور زراعت کے شعبے میں بھی کوئی قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوئی۔
ونڈ انرجی سستی بجلی کے حصول کا تیسرا بڑا ذریعہ ہے اور اس وقت 26 نجی ونڈ پراجیکٹس کام کر رہے ہیں جن سے 1335 میگاواٹ بجلی حاصل کی جا رہی ہے۔ پاکستان میٹروجیکل ڈپارٹمنٹ کے سروے کے مطابق کیٹی بندر کیساتھ 60 کلومیٹر /180کلومیٹر کا علاقہ ونڈ انرجی کی پیداوار کے لئے بہترین ہے۔ ونڈ انرجی کی 50 ہزار میگاواٹ بجلی کی گنجائش ہے۔ مائیکرو ونڈ ٹربائن کو تجاری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے علاوہ اس سے گھر کو بھی روشن کیا جا سکتا ہے۔ ان مائیکرو ٹربائنز سے پیدا کی جانے والی بجلی نیشنل گرڈ میں بھی شامل کی جا سکتی ہے۔ نگران وزیراعظم پن بجلی، شمسی اور ونڈ انرجی کے شعبوں میں درپیش رکاوٹوں کو دور کرکے عوام کو کم قیمت بجلی کی فراہمی کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ قابل تجدید انرجی کے فروغ سے صارفین سے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی تلوار ہمیشہ کے لئے ہٹ جائے گی۔