تحریر: ڈاکٹر اصغر دشتی
یونیورسٹیوں کے حوالے سے جب بھی بات کی جاتی ہے تو اکثر انہیں سماج سے کٹا ہوا، الگ تھلگ تعلیمی جزیرہ سمجھا جاتا ہے۔ عام تاثر یہی ہوتا ہے کہ یونیورسٹی محض تدریس، تحقیق یا علم کی منتقلی کا ایک اکیڈمک ادارہ ہے۔ مگر یہ سادہ تاثر حقیقت کو مسخ کرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یونیورسٹی ہمیشہ اپنے عہد کے معاشی، سیاسی اور ثقافتی ڈھانچے سے گہرا تعلق رکھتی رہی ہے اور اس کا کردار اسی سماجی و طبقاتی ترتیب کے مطابق ڈھلتا رہا ہے۔ یونیورسٹی کا تصور وقت کے ساتھ بدلتا رہا اور مختلف سماجی، معاشی اور سائنسی حالات یونیورسٹیوں کے کردار کی تشکیل کرتے رہے۔ تعلیمی ادارے صرف تعلیم دینے کی جگہ نہیں بلکہ سماجی اقدار، معاشی نظام اور سیاسی ماحول کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر یونیورسٹیوں کے آغاز و ارتقاء کو دیکھیں تو ہمیں تین ماڈلز واضح طور پر سامنے آتے ہیں۔
1-یونیورسٹی کالج ماڈل
یہ قدیم ادارے مسیحی مذہبی اقدار اور عقائد کے تحت تعلیم دیتے تھے۔ ان کا مقصد طلبہ کو مذہبی اور اخلاقی تعلیم دینا تھا اور علمی تحقیق ثانوی حیثیت رکھتی تھی۔ اس ماڈل کی مثالیں یونیورسٹی آف پیرس (سوربون)، فرانس، یونیورسٹی آف بولونیا، اٹلی اور یونیورسٹی آف سالامانکا، اسپین ہیں۔ یورپ میں یونیورسٹی کالجز مذہبی اور اخلاقی تعلیم کے مراکز تھے اسی طرح ایشیا میں بھی قدیم دور میں بدھ مت اور سناتن دھرم (ہندو ازم) کے تحت قائم ادارے نالندہ یونیورسٹی ( 5ویں صدی عیسوی، انڈیا) بدھ مت کی تعلیم، فلسفہ اور اخلاقیات کے لیے عالمی سطح کا مرکز تھی۔ اسی طرح ٹیکسلا یونیورسٹی (موجودہ پاکستان) بدھ ازم کے فلسفے کی تعلیم، قانون، فنون اور طب کے لیے معروف تھا۔ سناتن دھرم کے تحت گروکل اور ویدک مدارس بھی اسی طرز کے ادارے تھے جہاں اخلاقی، مذہبی اور سماجی تربیت پر زور دیا جاتا تھا جبکہ علمی تحقیق ثانوی حیثیت رکھتی تھی۔ یوں ایشیا کے یہ قدیم ادارے یورپ کے یونیورسٹی کالج ماڈل کے ہم پلہ سمجھے جا سکتے ہیں کیونکہ ان کا بنیادی مقصد بھی طلبہ کو مذہبی، اخلاقی اور سماجی اقدار کی تربیت فراہم کرنا تھا۔
2-ریسرچ یونیورسٹی ماڈل
یہ ماڈل سائنسی تحقیق اور فکری جدت کو یونیورسٹی کا بنیادی وظیفہ مانتا ہے۔ جدید سائنسی انقلاب اور سماجی تبدیلیوں نے ان اداروں کو علمی ترقی اور عالمی معیار کے علوم پیدا کرنے کا مرکز بنایا۔ مثال کے طور پر یونیورسٹی آف کیمبرج، برطانیہ۔ یونیورسٹی آف آکسفورڈ، برطانیہ۔ ہومبولٹ یونیورسٹی، برلن، جرمنی۔ ہارورڈ یونیورسٹی، امریکہ اور اسٹینفورڈ یونیورسٹی، امریکہ۔ یونیورسٹی آف ٹوکیو، جاپان۔ نمچنگ یونیورسٹی، چین شامل ہیں۔
3-ٹیکنیکل یونیورسٹی ماڈل
صنعتی انقلاب اور سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے تقاضوں نے ٹیکنیکل تعلیم کی اہمیت بڑھائی۔ یہ یونیورسٹیاں صنعتی اور معاشی ترقی کے لیے ہنر مند افرادی قوت تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر یونیورسٹی آف اسٹراتھکلاڈ، برطانیہ۔ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی)، امریکہ۔ کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کال ٹیک)، امریکہ ٹیکنِش یونیورسٹی میونخ (تم)، جرمنی۔
توبی، توکیو ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی، جاپان۔ چنگدو یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی، چین اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (بمبئی، دہلی)، انڈیا ہیں۔
یہ تینوں ماڈلز صرف تعلیمی اداروں کی تاریخی اقسام نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ سماج کی مادی بنیادوں اور پیداواری رشتوں میں تبدیلیوں کا عکس ہیں۔ یونیورسٹی کالجز مذہبی بنیادوں پر قائم کیے گئے تھے اور اُس دور کی پیداوار تھے جب یورپ میں زرعی معیشت، جاگیردارانہ نظام اور چرچ کی بالادستی ہر شعبے پر غالب تھی۔ اس عہد میں تعلیم کا مقصد سائنسی تحقیق یا سماجی ڈھانچے کی تبدیلی نہیں بلکہ موجودہ طاقت کے ڈھانچے، مذہبی عقائد اور اشرافیہ کے مفادات کو برقرار رکھنا تھا۔ ریسرچ یونیورسٹیوں کا ظہور اس وقت ہوا جب سرمایہ داری نے صنعتی ترقی، سائنسی دریافت اور فکری خودمختاری کو نئے پیداوار اور منافع کے ذرائع کے طور پر اپنایا اور چرچ کی علمی اجارہ داری کو توڑا۔ ٹیکنیکل یونیورسٹیوں کا ابھار صنعتی انقلاب کے بعد نئی ٹیکنالوجی اور مشینی پیداوار کے لیے تربیت یافتہ افرادی قوت پیدا کرنے کی ضرورت کی عکاسی کرتا ہے۔ موجودہ دور میں سرمایہ داری کی نئی شکل، نیو لبرل ماڈل اکانومی اور گلوبل نالج اکانومی نے ان تمام ماڈلز کو ایک ہائبرڈ فریم ورک میں ضم کر دیا ہے۔ یونیورسٹیاں اب صرف علم کی ترویج نہیں کر رہیں بلکہ سرمایہ، انسانی وسائل، ٹیکنالوجی اور منڈی کے قابل فروخت علمی مصنوعات تیار کر رہی ہیں۔ ٹیکنو فیوڈلزم کے بڑھتے ہوئے اثرات کے ساتھ یہ عمل ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے جہاں علم، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور ٹیکنیکل وسائل چند نجی کمپنیوں یعنی گوگل، مائکروسافٹ اور ایمیزون کے ہاتھوں مرکوز ہو رہے ہیں۔ اس نظام میں یونیورسٹیاں محض علم کی فراہمی کے ادارے نہیں بلکہ ڈیجیٹل اور معاشی طاقت کے مراکز بنتی جا رہی ہیں اور تنقیدی سوچ، اکیڈمک فریڈم اور سماجی برابری محدود ہو رہی ہے۔
ڈیجیٹل کمپنیوں کے مالکان اور سی ای اوز جدید دور کے ‘فیوڈل لارڈز’ بن کر پیداواری وسائل اور علم کو اپنے معاشی اور کاروباری مفادات کے تحت کنٹرول کر رہے ہیں یوں تعلیم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک غیر مساوی اور کنٹرول شدہ ڈھانچہ وجود میں آ رہا ہے، جو نیو لبرل ماڈل اور موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی طاقت کو مزید مستحکم کر رہا ہے اور تعلیم و تحقیق کو سماجی مزاحمت اور تبدیلی کے ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے سے روک رہا ہے۔
پاکستان میں بھی یونیورسٹیوں کا یہی ہائبرڈ ماڈل نظر آ رہا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیاں جیسے آئی بی اے، سازبیٹ، لمس اپنے طلبہ کو انٹرنیشنل ایکسچینج پروگرامز کے ذریعے یورپی و امریکی یونیورسٹیوں میں بھاری فیس کے عوض بھیجتی ہیں تاکہ عالمی مارکیٹ میں کسٹمر بیس بڑھایا جا سکے۔ یونیورسٹیوں کا یہ نیا کردار سوال اٹھاتا ہے کہ کیا تعلیم کا مقصد صرف افرادی قوت پیدا کرنا ہے یا عوامی سطح پر شعور و آگہی اور سماجی تبدیلی کا ذریعہ بھی ہونا چاہیے؟
یہ تمام مراحل اس بات کو واضح کر رہے ہیں کہ تعلیم کا ڈھانچہ اور مقاصد ہمیشہ پیداواری قوتوں اور رشتوں میں تبدیلی سے جڑے رہتے ہیں اور چرچ سے لے کر جدید کارپوریٹ یونیورسٹی تک ہر دور میں طاقتور طبقات کے نظریاتی اور معاشی مفادات کی تشکیل نو کا حصہ رہے ہیں۔ مگر اسی تاریخی جبر، دباؤ اور سرمایہ دارانہ طاقت کے غلبے کے باوجود طلبہ اور اساتذہ (چاہے کم تعداد میں اور محدود مزاحمت کے ساتھ ہی سہی) ہمیشہ یونیورسٹیوں میں تنقیدی ذہانت، اکیڈمک فریڈم، فری سپیچ اور علمی، ادبی فکری اور سیاسی جدوجہد کے کے ذریعے مزاحمت میں شامل رہے ہیں۔