تحریر: ماریہ چوہدری
ارتغل غازی ڈرامہ 4 سیزن کی 50 ویں قسط دیکھ رہے تھے جس میں امیر سعد الدین اپنی چالاکی اور مکاری کے ساتھ ارتغل غازی کو گرفتار کروا لیتا ہے اور ارتغل کے قلعے پر ایک کماندار کو بھیج کر قبضہ کروا دیتا ہے۔
قلعہ میں موجود ارتک صاحب سردار ترگت اور سپہ سالار بمسی بیرک کو امیر سعد الدین کوپیک کا بھیجا گیا کمان دار گرفتار کر لیتا ہے اور اپنے سپائیوں کو حکم دیتا ہے کہ ہر طرف سپاہی تعینات کر دو۔ سارے قبائل کے سرداروں کو بلاؤ اور ان کے سامنے نے ان کو پھانسی پر لٹکایا جائے گا تاکہ سارے قبائیل میں ہمارا ڈر پیدا ہوجائے۔ ان کی تذلیل کی جائے گی تاکہ ان کا نام لینے والا کوئی نہ ہو۔
ڈرامہ دیکھا ہی تھا کہ کسی نے سوشل میڈیا پر میاں محمد نواز شریف کی 13 جولائی 2018 کی ویڈیو شیئر کردی جب وہ اپنی بسترِ مرگ پر پڑی ہوئی بیوی کو چھوڑ کر پاکستان آئے تھے۔ نواز شریف اپنی قریب المرگ بیگم کی عیادت چھوڑ کر آئے، جیل جانا یقینی تھا، پھر بھی آئے۔
اس دفعہ سیاستدانوں کو ادھر ادھر، اندر باہر کرنے والوں کو خیال آیا ہو گا کہ اب نواز شریف اپنے ہی جال میں آگیا ہے۔ پاکستان آنے کا بڑا شوق ہے تو آئے جیلیں موجود ہیں، عدالتیں صادق امین اور اقامے کی صداؤں سے گونج رہی ہیں، میڈیا کھربوں کی کرپشن بتا رہا ہے، کوئی دو سو ارب ڈالر گن رہا ہے۔ کوئی کھانے کی میز پر لگی بوٹیاں شمار کر رہا ہے۔ جب میاں محمد نواز شریف لاہور ائیرپورٹ پر اترے ان کے جہاز سے اترنے سے پہلے ہی رینجرز کے اہلکار طیارے میں پہنچ چکے تھے۔ ائیر پورٹ کو تمام اطراف سے سیل کیا جا چکا تھا اور ہر طرف فوج رینجر اے ایس ایف پولیس کے سپاہی نظر آرہے تھے جنگی ماحول بنا ہوا تھا۔
ایک شخص خود خود اپنے ملک واپس آرہا ہے لیکن ہر طرف رینجرز فوج پولیس کا موجود ہونا یہ بتا رہا تھا کہ جن لوگوں نے نواز شریف کو سزا دلوائی ہے وہ پاکستانی عوام کو بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستانی عوام کے دلوں میں اپنا ڈر بیٹھنا چاہتے ہیں کہ وہ نہ ہی جمہوریت کے لئے نکلیں نہ ہی اپنے ووٹ کے حق کے لئے نکلیں، نہ ہی میاں محمد نواز شریف کے لیے نکلیں۔
میاں محمد نواز شریف تو اس ڈر اور خوف سے عاری تھا وہ اپنے ملک پاکستان اور پاکستانی عوام کے لئے اپنی بیوی کو بستر مرگ پر چھوڑ کر بیٹی کا ہاتھ تھام کر پاکستان آ گیا۔ مسئلہ کسی کرپشن کا نہیں تھا مسئلہ کچھ اور تھا جب میاں محمد نواز شریف تیسری دفعہ وزیر اعظم بنے اور ساتھ ساتھ اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھنے بھی لگے۔
یقیناً کچھ حلقوں میں جھنجھلاہٹ پائی جاتی تھی کہ یہ کیا چیز ہے باہر بھیجتے ہیں یہ پھر آ جاتا ہے، نہ صرف آ جاتا ہے بلکہ وزیر اعظم بن جاتا ہے اور نہ صرف آ جاتا ہے بلکہ اپنے آپ کو وزیراعظم سمجھنے بھی لگتا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود کی باتیں کرتا ہے ملک کو ترقی دینے کی باتیں کرتا ہے جنگ ختم کرکے امن کی باتیں کرتا ہے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ دو طرفہ تعلقات بنانے کی باتیں کرتا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے، 70 سالوں سے جو لوگ ملک پر قابض ہیں اپنی مرضی سے ملک کو چلاتے ہیں عوام کا حق کھاتے ہیں۔ جب ان کے سامنے ایسا وزیراعظم آجائے گا جو عوام اور ملک کی بات کرے گا۔ جو جنگ ختم کرکے امن کی بات کرے گا مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہے گا تو پھر ان کو کو جھٹکا تو لگے گا جن کا بزنس ہی جنگ ہو۔ ایسے بندے کو وہ کبھی بھی وزیراعظم رہنے نہیں دیں گے، تو اسی لیے ایک منتخب وزیراعظم کے خلاف دوسری سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی کر کے دھرنے کروائے گے۔ عدالتوں میں مرضی کے کیس بھی بنوائے مرضی کے فیصلے کروائے گئے۔
ایک جج نے کہا میں آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا تو اس کو کہا کہ ہماری دو سال کی محنت ضائع ہوجائے گی اس لیے جیسا ہم کہتے ہیں ویسا فیصلہ نہیں آیا تو آپ بھی اپنی نوکری سے جائیں گے پھر تاریخ نے دیکھا وہ جج بھی اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
ملک ترقی کر رہا تھا عوام خوشحال ہو رہی تھی لیکن ان لوگوں کو نہ ہی ملک کی ترقی سے غرض ہے نہ ہی عوام کی خوشحالی سے ان کو تو غرض ہے کہ ہر چیز ان کے کنٹرول میں رہے، ان کا کاروبار چلتا رہے، امریکہ میں بنگلے بنتے رہیں
سوئزرلینڈ میں اکاؤنٹ ڈالروں سے بھرتے رہیں، آسٹریلیا میں جزیرے خریدتے رہیں۔
عوام مرتی ہے مر جائے وہ تو پہلے بھی پرویز مشرف دور میں پاکستانی عوام کو امریکہ کے ہاتھوں بیچ چکے ہیں اور آج بھی عوام ہمارے انہی لوگوں کی وجہ سے مہنگائی بے روزگاری اور لاقانونیت کی چکی میں پس رہی ہے، لیکن وہ میڈیا کو کہتے ہیں مثبت خبریں دیکھائیں ہر طرف اچھا نظر آنا چاہیے کیونکہ ان ملک کے مالکوں کی جیب گرم ہے تو سب کچھ اچھا ہے۔