فیکٹ چیک، وفاقی وزیر شیریں مزاری کا شہید بینظیر بھٹو سے منسوب جعلی خط ٹویٹ بعد ازاں ڈیلیٹ کردیا

0
159

کراچی (مدثر غفور) تحریک انصاف کی حکومت ایک طرف جعلی خبروں کی روک تھام کیلئے پیکا قانون کا سہارا لے کر ڈریکونین صدارتی آرڈیننس جاری کررہی ہے تاکہ آزادی اظہار پر قدغن لگائی جاسکے اور دوسری طرف تحریک انصاف کی ہی رکن قومی اسمبلی جعلی خبروں کو ٹویٹ کررہی ہیں تو کیا جعلی خط کو ٹویٹ کرنے پر وفاقی وزیر شیریں مزاری کے خلاف پیکا آرڈیننس کے تحت ایف آئی اے سائبر کرائم میں مقدمہ درج ہوسکتا ہے؟۔

وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے شہید بینظیر بھٹو کے نام سے منسوب جعلی خط ٹویٹ بعد ازاں صحافی مطیع الللہ جان کے رپلائی کرنے کے بعد ڈیلیٹ کردیا۔ جس پر صحافی مطیع الللہ جان نے وفاقی وزیر شیریں مزاری کے ٹویٹ کا اسکرین شاٹ ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘وہ ٹویٹ ہے جسے میں نے ایک تبصرہ کے ساتھ نقل کرنے کے چند سیکنڈ بعد شیریں مزاری نے ٹویٹ حذف کر دیا تھا۔

وفاقی وزیر شیریں مزاری نے جعلی خط کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘انہوں نے پھر ایسا ہی کیا – امریکہ سے کہا کہ پاکستان کو جوہری پروگرام کی وجہ سے ہر قسم کی امداد اور امداد بند کر دے۔ مرحومہ بینظیر بھٹو نے بھی بطور وزیر اعظم تسلیم کیا کہ انہوں نے ‘جوہری ڈیوائس پر نظر رکھی’۔ اب ایک بار پھر پی پی پی ٹی آئی کے خلاف مولانا کے ساتھ مل کر اور ہر وقت اقتدار پر قابض مولانا فضل الرحمن بیرونی طاقتوں کو اپنے مکروہ کھیل کے لیے استعمال کر رہے ہیں!۔

ٹویٹ کے جواب میں مطیع الللہ جان نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘کیا یہ متعلقہ حلقوں کے لیے انتباہ ہے کہ اگر عمران خان کو ہٹا دیا گیا تو کیا ہو سکتا ہے؟’۔

وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے جعلی خط کا حوالہ دیتے ہوئے ٹویٹ کیا تھا جو بعد میں ڈیلیٹ کردیا۔

ریکارڈ کے لئے: بدنام زمانہ بینظیر بھٹو شہید کے جعلی خط 1990

کی تین دہائیوں بعد حقیقت کیا ہے؟

الجزیرہ سے تعلق رکھنے والے صحافی اصامہ بن جاوید طویل عرصے سے جعلی خبروں کو ختم کرتے پیں اور انہوں نے 9 ستمبر 2011 کو امریکی مصنف، ماہر تعلیم، مبصر، سیاست دان، پالیسی مشیر، اور سابق امریکی سفارت کار پیٹر گالبریتھ کو ای میل کرتے ہوئے بینظیر بھٹو شہید کے خط کے بارے دریافت کیا جس پر مسٹر پیٹر گالبریتھ نے اصامہ بن جاوید کو ای میل کا جواب دیتے ہوئے ‘جعلی خط’ ہونے کی تصدیق کی۔

صحافی اصامہ بن جاوید نے اپنے بلاگ میں بینظیر بھٹو شہید کے خط کی تفصیل لکھی ہے۔ اصامہ بن جاوید نے پیٹر گالبریتھ کو ای میل کرتے ہوئے خط کے بارے میں پوچھا کہ ‘یہ ہے ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال کا خط اور ایک ای میل جو مجھے پیٹر گالبریتھ (گیبریل نہیں) کی طرف سے موصول ہوئی جب مجھے یہ خط ملا۔ پیٹر گالبریتھ اسے ایک جعلسازی اور خام دھوکہ قرار دیتے ہیں۔ میں یہ بات آج تک بھول چکا تھا جب مسٹر کمال نے اس خط کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا تھا کہ میڈیا اس پر کیوں غور نہیں کرتا اور ذوالفقار مرزا کے ان الزامات پر کھیلتا رہتا ہے کہ الطاف حسین نے ٹونی بلیئر کو خط لکھ کر انہیں ہزاروں پیروکاروں کی حمایت کی پیشکش کی تھی۔ میں نے ابھی تک مسٹر بلیئر کے دفتر سے نہیں سنا ہے لیکن جیسے ہی ہم خط کے مندرجات کی تصدیق یا تردید کر سکیں گے میں اسے شیئر کروں گا۔

پیٹر گالبریتھ بنام اسامہ جاوید کو ای میل کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ‘یہ خط 20 سال پہلے ایک خام دھوکہ دہی کے طور پر سامنے آیا تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ آج اس جعلسازی کو کیوں ری سائیکل کیا جا رہا ہے۔ جعلسازی کی بہت سی واضح نشانیاں ہیں اور میں ان سب سے نہیں گزروں گا۔ لیکن، یہاں چند ایک ہیں۔

جعل ساز نے میرا نام غلط لکھا ہے۔ یہ “گل بریتھ” نہیں “گیل بریتھ” ہے۔ بینظیر بھٹو شہید اور میں بہت گہرے دوست تھے۔ وہ میرے خاندان کے بھی بہت قریب تھیں، بشمول میرے والد جو ہارورڈ اور جنوبی ایشیا میں ایک مشہور شخصیت تھے۔ یہ ناممکن ہے کہ وہ گالبریتھ خاندان کے نام کی غلط املاء کرے گی۔

میں نے 1990 میں سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے لیے کام کیا، اور کبھی بھی نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ کے لیے کام نہیں کیا۔ بینظیر شہید اس بات کو اچھی طرح جانتی تھیں کیونکہ وہ 1980 کی دہائی میں مختلف اوقات میں عملی طور پر میرے دفتر میں رہ چکی تھیں۔

https://en.m.wikipedia.org/wiki/Peter_Galbraith

بِینظیر شہید ایک پاکستانی محب وطن تھیں جنہوں نے کبھی پاکستان کی امداد میں کٹوتی کی وکالت نہیں کی اور نہ ہی پاکستانی سرحد پر ہندوستانی فوجیوں کی موجودگی کی خواہش کی تھی۔ میں حیران رہ گیا کہ پاکستان میں ایسے صحافی اور ایڈیٹرز ہیں جو حقیقت میں اس دھوکے کا شکار ہو گئے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اور ڈان اس واضح فراڈ کو تلاش کرنے کے لیے کافی نفیس ہیں جس کی وجہ سے میں حیران ہوں کہ آپ نے مجھے اس کے بارے میں کیوں لکھا ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں