کراچی (مدثر غفور) پاکستان اسٹیل ملز سے وفاقی وزارت صنعت و پیداوار میں ڈیپوٹیشن پر آنے والا گریڈ 18 کا بااثر افسر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے خود ساختہ پاکستان اسٹیل مل کا ترجمان بن گیا ہے جبکہ سرکاری ملازمین کے بغیر اجازت سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عائد کر رکھی ہے، گزشتہ سال 2 ستمبر کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری آفس میمورنڈم میں سرکاری ملازمین بغیر اجازت کوئی سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال نہیں کرسکتے۔
https://www.facebook.com/share/v/1AmDAEZPBZ
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے جاری کردہ میمورنڈم کے مطابق یہ فیصلہ سرکاری معلومات و دستاویزات افشاء ہونے سے روکنے کے لیےکیا گیا ہے جس میں سرکاری ملازمین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گورنمنٹ سرونٹس (کنڈکٹ) رولز 1964 کی پاسداری کریں۔ سرکاری ملازم سرکاری دستاویز اور معلومات غیر متعلقہ افراد کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتا جب کہ سرکاری ملازمین ایسی رائے یاحقائق بیان نہیں کرسکتے جس سےحکومتی ساکھ متاثر ہو۔ ملازمین کو حکومتی پالیسی، فیصلوں، ملکی خودمختاری اور وقار کے منافی بات کی اجازت نہیں اور نا ہی ملازمین میڈیا پر ایسی بات کرسکتے ہیں جس سے دیگر ممالک سے تعلقات متاثر ہوں۔ سرکاری ملازمین کو اکثر سوشل میڈیا پر بحث و مباحثہ کرتے دیکھا گیا ہے، ہدایات کا مقصد سوشل میڈیا کے مثبت استعمال پر پابندی لگانا نہیں۔ ادارے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے قابل اعتراض مواد ہٹانے کے لیے نگرانی کرتے رہیں اور تمام سروسز، گروپس کے سرکاری ملازمین ہدایات پر عمل درآمد کے پابند ہیں، خلاف ورزی پر متعلقہ ملازمین کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے جاری کردہ میمورنڈم میں ہدایت دی گئی ہے کہ تمام وفاقی سیکرٹریز، ایڈیشنل سیکرٹریز، محکموں کے سربراہان اور چیف سیکرٹریز حکم پر عمل کروائیں گے۔

بااثر ڈیپوٹیشنسٹ افسر سوشل میڈیا کا استعمال کرنے کے ساتھ ملاقاتوں کی وڈیو پوسٹ کرنے لگا۔ اسٹیل مل پانچ سال سے مکمل بند ہے اور یہی نہیں بلکہ مذکورہ افسر ادارے کے پرانے تجربہ کار افسران کی موجودگی کے باوجود اسٹیل مل کی نجکاری کے لیے آنے والے روسی وفود سے ملاقاتیں کر رہا ہے۔
مذکورہ افسر انجینیئر شعیب کی ڈیپوٹیشن پر تعیناتی 2018 میں ہوئی جبکہ اس تعییناتی کی مخالفت کئی اعلی افسران نے کی اور سابق کمپنی سیکریٹری نے بھی وزارت صنعت و پیداوار کو خط لکھ کر مزکورہ افسر کی مذید ڈیپوٹیشن کی مخالفت کی اور وزارت صنعت و پیداوار کے لیٹر 8 اکتوبر 2024 اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزارت میں ایکسین شعیب کی بطور مانیٹرنگ آفیسر غیر قانونی تعیناتی کے بارے میں لکھا ہے، تاہم تگڑی سفارش ہونے کی وجہ سے براجمان ہے۔

اسٹیل ملز کا خود ساختہ ترجمان بننے والے شعیب خان یہ بتانے سے گریزہ ہے کہ اگر اسٹیل مل 2015 سے بند ہے تو وہ اب تک اسٹیل ملز سے کس کام کی تنخواہ لے رہا ہے اور جونیر ایکسین انجنیئر ہونے کی وجہ سے موجودہ قائم مقام سی ای او اسد ماہنی نے اسے انڈسٹریل آرڈینینس کی رو سے ‘لاسٹ ان فرسٹ آئوٹ’ (لیفو) اصول کے تحت اب تک کیوں برطرف نہیں کیا جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ شعیب خان کی خود دائر کردہ پیٹیشن نمبر 1545/2021 کے فیصلے 4 دسمبر 2023 میں شعیب خان کے منسٹری آف پروڈکشن کے 5 سال سے زائد ڈیپوٹیشن کو غیر قانونی قرار دے کر اسے اسٹیل ملز واپس بھیجنے کا حکم صادر کر چکی ہے۔ لیکن اسٹیل ملز بورڈ اور سی ای او اسد ماہنی کو یہ لاقانونیت، اقربا پروری، سفارش کلچر، اسلام آباد ہائی کورٹ کی حکم عدولی اور اسٹیل ملز آفیسر سروس رولز کی صریح دانستہ خلاف ورزی نظر نہیں آ رہی اور پر سرار خاموشی ہے۔

موجودہ شہباز حکومت کی اسٹیل ملز بحالی کیلئے سنجیدگی کا اندازہ اس نقطہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسٹیل ملز کو بحال کرنے کیلئے 17 سالہ معمولی تجربہ رکھنے والے جونیئر ایکسین سے مدد لے رہی ہے جو میٹالرجی کے شعبے سے متعلقہ بھی نہیں ہے جبکہ 40
سال سے زائد تجربہ کار اسٹیل ملز سے جبری نکال دیے گئے۔

وزارت صنعت و پیداوار کے زرائع کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے 4 دسمبر 2023 کے باوجود دوبارہ منسٹری میں ڈیوٹی لگوا کر بیٹھ گیا ہے اور اسلام آباد زونل آفس کا انچارج بن کر خود بھی اور منسٹری کے لوگوں کو بھی غیر قانونی مراعات (امپرسٹ اکاونٹ سی خرچے، گاڑیاں، کھانے اور رہائش) کے مزے کروا رہا ہے۔ اسد ماہنی سے پوچھا جائے کہ جب اسٹیل ملز بند ہے تو زونل آفس اسلام آباد کو بند کیوں نہیں کیا گیا یا ٹھیکے پر ٹینڈر کے ذریعے کیوں نہیں دیا گیا؟ اسے اسد ماہنی نے صرف اپنی، منسٹری اور شعیب خان کی عیاشی اور اس کی جعلی پوسٹنگ کو چھپانے کے لئے باقی رکھا ہے۔ یہ بورڈ کے موجودہ رکن ابصار نبی کی ملی بھگت سے کیا گیا ہے جنہیں شعیب کے ایم او آئی پی حکام کے مشورے پر بورڈ میں رکھا گیا تھا۔ اس طرح وہ ایک دوسرے کے ناجائز مفادات کی تکمیل کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے نمائندہ کے رابطہ کرنے پر انجینیئر شعیب کا کہنا تھا کہ میں پاکستان اسٹیل مل کا ترجمان تو نہیں مگر مجھے چیف ایگزیکٹیو آفیسر نے بیان جاری کرنے کے زبانی احکامات دیے ہوئے ہیں۔ روسی وفد سے ملاقات کے حوالے سے اس کا کہنا تھا کہ اس بات کی اجازت وزارت نے دی ہے جب ان سے وہ لیٹر مانگا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت کانفیڈنشل معاملہ ہے۔
نمائندہ نے اس تمام تر صورتحال پر موقف لینے کیلئے وفاقی سیکریٹری صنعت و پیداوار سیف انجم اور بورڈ آف ڈائریکٹر اسٹیل ملز ابصار نبی کو واٹس ایپ پر سوالات بھیجے، کال کی تاہم سیف انجم اور ابصار نبی نے جواب نہیں دیا۔
اسٹیل ملز ملازمین وزیراعظم پاکستان، اعلیٰ عدلیہ اور ایف آ ئی اے سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اسٹیل ملز ملازم شعیب خان کی منسٹری آف پروڈکشن میں غیر قانونی تعیناتی کو فی الفور ختم کیا جائے اور اسے واپس اسٹیل ملز بھیجا جائے۔