تحریر: مقبول خان
امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے گذشتہ دنوں ادارہ نورحق میں وزیر اعلیٰ ہائوس کا گھیرائو کر نے کی دھمکی دی تھی۔ ان کی یہ دھمکی شہر میں ڈاکو راج، مسلح ڈکیتیوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں، ڈاکوئوں کی فائرنگ سے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے پس منظر میں تھی، منعم ظفرخان نے سندھ حکومت و محکمہ پولیس کی نا اہلی و ناقص کارکردگی اور عوام کی جان و مال کے تحفظ میں ناکامی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ صوبائی حکومت اور محکمہ پولیس نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کی اور اہل کراچی کی جان ومال کا تحفظ یقینی نہ بنایا تو جماعت اسلامی وزیر اعلیٰ ہائوس کا گھیرائو کرے گی اور پھر کراچی کے شہریوں کے لیے کوئی ریڈزون نہیں ہوگا، انہوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہا کہ پیپلزپارٹی بتائے کہ سیف سٹی پروجیکٹ کے لیے ساڑھے 4 ارب روپے مختص کیے گئے اس کا کیا ہوا؟ بلا شبہ سیف سٹی پروجیکٹ کراچی کے شہریوں کا دیرینہ خواب ہے۔ جو اب تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ہے۔ کراچی میں نوجوانوں کا قتل عام ایک ایسا انسانی المیہ ہے، جس کو الفاظ میں ادا کرنا ممکن نہیں ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن کے مطابق کراچی میں خوف و ہراس کی کیفیت ہے، کراچی میں نوجوانوں کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا جا رہا ہے۔
حافظ نعیم الرحمٰن کا شکوہ ہے کہ کراچی منی پاکستان اور پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے، حکومتیں کراچی کو نظر انداز کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں چار پانچ مہینے میں 800 سے زائد نوجوانوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے، 90 ہزار وارداتیں ایک سال میں ہوئی ہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ کراچی میں 80 سے 90 فیصد لوگ رپورٹ ہی نہیں کرتے، صرف چھینا جھپٹی کے پانچ چھ سو فیصد زیادہ جرائم ہوتے ہیں، اب سارا قبضہ سسٹم ہے، فارم 47 پر سب موجود ہیں۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر مرکزی رہنما سید مصطفی کمال کا بھی ایک پریس کانفرنس میں یہ کہنا تھا کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت گزشتہ کئی دہائیوں سے کراچی والوں کا معاشی، سماجی استحصال اور نسل کشی کی جا رہی ہے۔ انہیں اس بات کا بھی شکوہ ہے کہ پہلے صرف پاکستان کے واحد صوبے سندھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کرکے یہاں کے نوجوانوں کیلیے تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں کے دروازے بند کیے گئے اور جب والدین نے اپنے بچوں کو پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں پڑھا لکھا کر قابل بنا دیا اور یہ نوجوان کاروبار کرنے لگے یا اپنی قابلیت پر پرائیوٹ سیکٹر میں نوکریاں کرنے لگے تو اسٹریٹ کرائمز کی آڑ میں کراچی کے ان قابل اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کارگٹ کلنگ اور نسل کشی کی جارہی ہے، کراچی میں جب تک تھانے بکتے رہیں گے امن و امان قائم نہیں ہوگا۔ پریس کانفرنس میں مصطفیٰ کمال نے سندھ حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا تھا کہ شہر میں ظلم کی انتہا ہو چکی ہے۔ اگر سندھ حکومت اگر قاتلوں کو روکنے اور شہر کو اسلحہ سے پاک کرنے میں ناکام ہے تو تمام شہریوں کو لائسنس یافتہ اسلحہ رکھنے کی اجازت دے، ہم ان والدین اور بہن، بھائیوں کو تسلی کیسے دیں جنھوں نے اپنا بیٹا یا بھائی اس شہر میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں کھو دیاہے؟، حکمران سوچیں کہ مرنے والے کے ساتھ پورے پورے گھرانے تباہ ہو گئے، ہم محلہ کمیٹیوں کے ساتھ مل کر علاقوں کو محفوظ کرنے کے لیے بیریئر لگانے جا رہے ہیں، لوکل پولیسنگ ہی مسئلے کا واحد حل ہے جب تک تھانے بکتے رہیں گے امن و امان قائم نہیں ہوگا۔
حافظ نعیم الرحمنٰ، مصطفےٰ کمال اور منعم خان اور دیگر رہنمائوں کی سندھ حکومت کی کارکردگی پر تنقید کے حوالے سے اس لفظی گولہ باری سے نہ تو کراچی میں نوجوانوں کا سڑکوں پر قتل عام رکا۔ اور نہ شہر کے گلی کوچوں میں امن و امان کا قیام ممکن ہوسکا۔ کراچی میں امن و امان کے حوالے سے پولیس اور ریجرز کی کارکردگی بھی شہریوں سامنے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس وقت ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی تینوں جماعتیں ہی کراچی میں عوام کی نمائندگی کی دعویدار ہیں، جبکہ ایم کیو ایم وفاقی حکومت کا حصہ ہے، اور پیپلز پارٹی کا پورے سندھ پر بلا شرکت غیرے اقتدار ہے۔ جماعت اسلامی بھی کراچی میں موثر سیاسی قوت کی حامل سیاسی جما عت ہے۔ اس کے باوجود ملک کے سب سے بڑے شہر کے تین کروڑ شہری اپنی جان و مال غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ ملکی خزانہ کو سب سے زیادہ ریونیو فراہم کرنے والے اپنی جان و مال اور عزت کے تحفظ کے لئے کس سے فریاد کریں، وہ کب تک لوٹ مار کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ اس کا جواب شاید کسی کے پاس نہ ہوگا؟؟۔