کراچی (مدثر غفور) ملک میں قائم ایف آئی اے کے تمام سائبر کرائم سرکلز تحقیقات کے معاملے میں متنازع ہی رہے ہیں۔ تحقیقات میں ملزمان کو فیور دینے پر ماضی میں مختلف سرکلز کے افسران کے خلاف مقدمات بھی درج ہوئے، افسران گرفتار بھی ہوئے اور نوکریوں سے بھی برخاست بھی ہوئے لیکن اس کے باوجود سرکلز میں موجود افسران کا قبلہ کبھی درست نہ ہوسکا۔
سائبر کرائم سرکلز میں ماضی میں ایسا بھی ہوا کہ ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کے خلاف درخواست دی اور ایک ہی دن میں تحقیقات ویریفکیشن سے انکوائری میں، انکوائری سے مقدمے میں تبدیل ہوگئی، اور اگر نہ چاہیں اور اگر ملزم کو فیور دینی ہو تو تحقیقات مہینوں نہیں برسوں ایک تحقیقاتی افسر سے دوسرے تحقیقاتی افسر اور یہاں تک کہ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کر دی جاتی ہیں۔
ایسی ہی ایک التوا کی شکار تحقیقات کا تعلق کراچی سائبر کرائم سے ہے۔ دستاویزی ثبوتوں کے مطابق کیٹرنگ کے شعبے سے منسلک ایک مشہور نام عامر راجپوت کیٹرنگ کے مالک عامر راجپوت نے ایک برس قبل سائبر کرائم کراچی میں یہ درخواست دی کہ ان کی بیوی کا بھائی عمران راجپوت ان کی کمپنی کا ملازم تھا اور وہ ان کے ملتان کے کاروبار کو کافی عرصے سے دیکھ رہا تھا۔ کچھ برس قبل اس کی نیت میں فتور آگیا اور اس نے عامر راجپوت کیٹرنگ کے پلیٹ فارم سے ہی خود کو عامر راجپوت کیٹرنگ سروس کا مالک ظاہر کرکے کاروبار کرنے لگا اور آمدن کے متعلق اپنے مالک کو کچھ نہ بتایا۔ یہی نہیں پھر بعد میں عامر راجپوت کی کیٹرنگ سروسز کی ویب سائٹ پر اپنی تصویر چسپاں کر دی جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ عامر راجپوت کیٹرنگ سروس کا ہی مالک ہے۔ مالک کی شکایت پر ویب سائٹ کی سروسز فراہم کرنے والی کمپنی نے بھی یہ لیٹر لکھ دیا کہ عمران راجپوت اس ویب سائٹ کا مالک نہیں ہے۔
مذکورہ تحقیقات کا جب آغاز ہوا تو سرکل کے نئے نئے تعینات شدہ سربراہ شہزاد حیدر تھے۔ وہ کافی عرصے تک شکایت کنندہ سے یہ کہتے رہے کہ سابق ڈائریکٹر عاصم قائم خانی تحقیقاتی افسر پر مقدمہ درج نہ کرنے کا دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ڈائریکٹر کے تبادلے کے بعد وہ یہ کہتے رہے کہ ڈپٹی ڈائریکٹر احمد ضعیم رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ جب ڈپٹی ڈائریکٹر کا بھی تبادلہ ہو گیا تو کہنے لگے کہ اب نئے ڈائریکٹر ڈاکٹر فاروق اس تحقیقات پر فیصلہ کریں گے۔ اس ایک برس میں تحقیقات کے تین افسران تبدیل ہوئے مگر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ ایک دفعہ عمران راجپوت کو طلبی کا نوٹس بھیجا گیا لیکن اس نے آنے سے انکار کر دیا۔ بعد میں اس نے اسلام اباد میں تعینات ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سائبر کرائم اسحاق جہانگیر کو درخواست دی کہ وہ کراچی جا کر تحقیقات کا حصہ نہیں بن سکتا کیونکہ اس کی جان کو خطرہ ہے، لہذا تحقیقات جہاں کا وہ رہائشی یعنی ملتان ٹرانسفر کر دی جائے، پھر ملتان تحقیقات ٹرانسفر کرنے کا حکم نامہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل نے تقریبا ایک ماہ قبل جاری کر دیا۔
ایف آئی اے کی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ درخواست گزار کراچی میں ہو، جرم کراچی میں ہوا ہو، ملزم ملتان میں ہو اور تحقیقات اس کی سہولت کی فراہمی کے لیے اسی کے شہر میں ٹرانسفر کر دی جائیں۔ ماضی میں سائبر کرائم کراچی میں ایک اہم مقدمہ درج ہوا جس میں مدعی ایک ڈاکٹر تھا اور ملزم نے ایک بڑی رقم مدعی کے بینک آکاؤنٹ سے راولپنڈی میں نکلوائی۔ مقدمہ کراچی میں درج ہوا ایف ائی اے کی ٹیم راولپنڈی گئی ملزم کو گرفتار کرکے کراچی لائی اور مدعی کو تمام پیسے واپس دلوائے۔ یہاں یہی محاورہ فٹ آتا ہے کہ ‘جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے’۔
عامر راجپوت متعدد بار ایڈیشنل ڈائریکٹر شہزاد حیدر، تحقیقات کے تفتیہی افسران اور ڈائریکٹر ڈاکٹر فاروق سے بالمشافہ ملے مگر ان کو صرف تسلیاں ہی دی گئیں لیکن کچھ نہیں ہوا۔ اب ایک ماہ سے نہ تو کراچی میں تحقیقات ہو رہی ہیں اور نہ ہی انکوائری کی فائل لاہور زونل آفس یا ڈپٹی ڈائریکٹر ملتان انصر عباس کے پاس پہنچی ہے، کیونکہ ایک ماہ تک تو یہی عذر بتایا جاتا رہا کہ ٹرانسفر کا لیٹر کراچی نہیں موصول ہوا۔ ایک ماہ گزرنے کے باوجود تحقیقات ملتان ٹرانسفر کرنے کا لیٹر کراچی نہ پہنچ سکا شاید ڈاکیہ پیدل لے کر آرہا تھا اور 9 ستمبر تک معاملہ جوں کا توں تھا۔
اس حوالے سے مدعی عامر راجپوت نے تصدیق کی کہ انہوں نے درخواست سائبر کرائم کراچی کو دی تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ انصاف اور ملزم کے خلاف کاروائی کے لیے ایک برس سے خوار ہو رہے ہیں۔
سائبر کرائم کراچی کے دو اعلی افسران نے اس بات کی تصدیق کی کہ انکوائری ملتان ٹرانسفر کرنے کا لیٹر جاری ہو چکا ہے مگر انکوائری فائل ابھی بھی کراچی میں موجود ہے۔ جبکہ ملتان سائبر کرائم کے افسر نے یہ انکشاف کیا کہ اب تک ان کے پاس نہ ہی انکوائری ٹرانسفر ہونے کا لیٹر اور نہ ہی کراچی سے انکوائری فائل بھیجی گئی ہے جبکہ مبینہ ملزم عمران راجپوت سے موقف لینے کیلئے رابطہ کیا تو فون آٹینڈ کرنے سے گریز کیا۔