سروے: مقبول خان
ملک کے ممتاز ادیب و شاعر اور دنیائے صحافت کا معتبر نام محمود شام فر ماتے ہیں واہ واہ۔ بہت اچھی اصطلاح۔ برقی اور ورقی۔ آئندہ یہی استعمال کریں گے۔ جناب محمود شام کے اس تبصرے پر سینئر صحافی نواب قریشی کا کہنا ہے کہ بھائی مقبول، محمود شام کی جانب سے برقی اور ورقی کی اصطلاح کی قبولیت آپ کے لئے بڑا اعزاز ہے۔
جناب محمود شام کے یہ ریمارکس کہ ‘ہماری فیس بک وال پر ایک پوسٹ اخبار مر نہیں سکتا برقی اور ورقی دونوں زندہ رہیں گے پر کمنٹس کرتے ہوئے دیے تھے۔ ہم اس موضوع پر دیگر دوستوں کے کمنٹس یہاں نقل کرنے سے قبل اس موضوع کا مختصر پس منظر بیان کرنا ضروری سمجھتے ہیں’۔
خبروں کی دنیا پر دو صدیوں تک راج کرنے والا اخبار اب زوال کی طرف گامزن ہے۔ پاکستان میں بیسویں صدی کے ہزاریے کے آغاز کے ساتھ ہی اخبارات کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے پہلے اس پر ٹی وی چینلز کی یلغار ہوئی۔ الیکٹرونک میڈیا کے بعد اسے ڈیجیٹل میڈیا کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ اب بھی ان کے سامنے ڈٹا ہوا ہے۔ بلاشبہ اخبارات کی تعداد اشاعت میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ صرف طباعت کے اخراجات میں اضافہ ہی نہیں ہے۔ بلکہ عامل صحافیوں اور میڈیا مالکان نے اخبار اور ان میں کام کرنے والے صحافتی عملے کو جدید تقاضوں اور ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کے ساتھ میڈیا ہاوسز کے مالکان نے اخبارات کی اہمیت اور افادیت برقرار رکھنے کے لئے ضروری اقدامات نہیں کئے۔ اس حوالے سے متعلقہ سرکاری حکام کا کردار بھی منفی رہا۔ انہوں نے بھی اخبارات اور جرائد کو سنبھالا دینے اور ان کی اشاعت بر قرار رکھنے میں وہ کردار ادا نہیں کیا جو وہ چینلز اور ڈیجیٹل میڈیا کے آنے سے قبل کرتے رہے ہیں’۔
ہماری اس پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کراچی پریس کلب کے سابق صدر اور صحافی رہنما امتیاز خان فاران فرماتے ہیں سو فیصد درست، پاکستان میں اخباری صنعت ختم نہیں ہورہی اس کا گلا گھونٹا جارہا ہے، دنیا بھر میں دفاتر میں ضروری کاغز ختم یا بہت ہی کم استعمال ہو رہا ہے لیکن اخبارات کتابوں کی اشاعت زیادہ متاثر نہیں ہوئی دوسرے ممالک میں اخبارات اور کتابوں (غیر تجارتی) کی اشاعت کے لئے کاغذ سیاہی رعائتی فراہم کی جاتی ہے، جس کے باعث ان کی زیادہ قیمتیں نہیں ہوتیں، جبکہ کسی بھی واقعہ،ریسرچ، تقریب وغیرہ کی تفصیلات اور ماحول الیکٹرانک میڈیا اور دیگر زرائع کے مقابلے میں مکمل اور سیر حاصل مل جاتا ہے پاکستان میں جان بوجھ کر اخبارات اور معلوماتی کتابوں کے خلاف ملکی اور غیر ملکی سطح پر سازشیں کی جارہی ہیں آج بھی اگر بجٹ دیکھیں تو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پرنٹ میڈیا کو الیکٹرانک میڈیا کے مقابلے میں اشتہارات کی مد میں خاصی رقم ملتی ہے لیکن پیسے وصول اور اخبارات بند کئے جارہے ہیں پی ایف یو جے نے یہ سال پرنٹ میڈیا کے حوالے سے منانے کا اہم اعلان کیا تھا لیکن بدقسمتی سے خاطر خواہ سرگرمیاں نہیں ہوئیں جو قابل تشویش و فکر ہیں لکھت بکت کے مقابلے میں مستند تھی اور رہے گی۔
سینئر صحافی شہزاد چغتائی کا موقف ہے کہ ‘صرف پاکستان میں ایسا ہوا ہے جس کے ذمہ دار اخباری مالکان ہیں جب اخبار میں کچھ پڑھنے کے لیے نہیں ہوگا تو لوگ کیوں خریدیں گے۔ کتابیں تو لوگ پہلے ہی نہیں پڑھ رہے تھے اب کوئی کتاب بھی نہیں آرہی سب اپنا کالموں کا مجموعہ جمع کر کے کتاب بنا دیتے ہیں۔ اس سے سارا نقصان بچوں کا ہو رہا ہے۔ اسکولوں میں بچوں کو پڑھنے کے لیے کتابیں دی جانی چاہیے اور ان سے کہا جانا چاہیے کہ وہ گھر جا کر کتاب پڑھیں اور کتاب پر ریویو بھی دیں۔ اس وقت فلائٹ میں ہوں جس میں زیادہ تر لوگ بیٹھے ہوئے کتاب پڑھ رہے ہیں۔ ٹرینوں میں بھی یہی صورتحال ہوتی ہے لوگ ہوٹلوں ریسٹورانٹوں میں بیٹھے ہوئے بھی کتابیں پڑھتے رہتے ہیں، یورپ میں کتاب کلچر بہت زیادہ ہے اس نسل کو بچانا ہے تو ان کو مطالعے کی عادت ڈالیں’۔
سینئر صحافی زبیر نذیر خان کہتے ہیں کہ ‘اخبار ضمیر نہیں کہ مردہ ہو جائیں گے’۔ معروف شاعر صفدر صدیق رضی کا کہنا ہے کہ ‘صفحہ قرطا س کو سبقت حاصل ہے’۔ معروف شاعرہ ناہید عزمی تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘بہت عمدہ۔اللہ کرے ورقی پڑھنے والے رہے تو ورقی زندہ رہ سکتا ہے۔ ورنہ بغیر روح کا جسم بن جائے گا’۔
معروف سماجی رہنما شائستہ بخاری کا کہنا ہے کہ ‘ورق مہنگا ہوتاجا رہا ہے اخبار تو زندہ رہے گا لیکن برقی دیکھ لیجیے گا ایک وقت پر؟؟’۔ مشہور صحافی اور صوفی بزرگ بابا کلیم فریدی کہتے ہیں کہ ‘صحافت کا غذی ہو یا برقی، چلتی رہے گی جدید دور کے ساتھ ساتھ’۔ کئی کتابوں کے مصنف م ص ایمن کا کہنا ہے کہ ‘بہترین اور حسب محل اصطلاح ہے’۔ شعبہ تدریس سے وابستہ اور مصنفہ عفت نوید کہتی ہیں کہ ‘اخبار مر نہیں سکتا مگر لاغر ہو سکتا ہے’۔ ایک دوست فیروز بخت کہتے ہیں کہ ‘برقی دنیا ایک نشہ ہے لت ہے، یہ بینائی اور دانائی کی دشمن ہے، ورق میں توازن کا عرق ہے۔ فیس بک دوست نزاکت علی خان کہتے ہیں کہ ‘بالکل درست فرمایا! خبریں کبھی مر نہیں سکتیں، چاہے وہ برقی ہوں یا ورقی، ہمیشہ زندہ رہتی ہیں اور عوام تک پہنچتی رہتی ہیں’۔