تحریر: ماریہ چوہدری
پانی الله تعالٰی کی طرف سے دی گئی بے شمار نعمتوں میں سے ایک خاص نعمت ہے، پانی انسان کے لیے ایک لازم جزو ہے کیونکہ پانی کے بغیر کوئی بھی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہمارے اوپر اللّٰہ کا خاص کرم ہے کہ اس نے ہمیں صاف پانی کی نعمت سے نوازا ہوا ہے لیکن آپ زرا ان علاقوں کا ضرور دورہ کریں جن علاقوں میں پینے کے لئے صاف پانی ہی موجود نہیں۔ کراچی کا شہر جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے وہ صاف پانی جیسی قدرتی نعمت سے محروم ہے، وہاں کے رہائشی گندہ پانی پینے پر مجبور ہوئے پڑے ہیں، اسی طرح اندرون سندھ اور تھر میں بھی صاف پانی کی بہت قلت ہے۔ ہر حکومت الیکشن جیتنے کی کش مکش میں ترقیاتی کاموں کے وعدے تو کرتی ہے لیکن جب وہ اقتدار حاصل کرلیتے ہیں تو عوام کے دکھ اور تکلیف کو اپنے پاؤں تلے روند دیتے ہیں۔
ہمارے ملک میں سی پیک کے تحت بےشمار میگا پروجیکٹس پر کام جاری ہے، آئے روز چئیرمین سی پیک اتھارٹی میڈیا کو ان میگا پروجیکٹس کے متعلق بریفنگ دے رہے ہوتے ہیں۔ وفاقی حکومت اور بلوچستان کی صوبائی حکومت آئے روز خوشحال بلوچستان کے نعرے لگا رہی ہوتی ہے لیکن اگر ہم حقیقت کو جانچنے کی کوشش کریں تو وہ ان کے دعووں کے برعکس ہے کیونکہ پاکستان کے سب سے بڑے گوادر پورٹ کے رہائشی صاف پانی پینے کے لئے ترس گئے ہیں، گوادر کے رہائشی آئے روز گندہ پانی پینے کی وجہ سے پیٹ کی بیماری اور ٹائیفائڈ کی بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ گوادر میں موجود ایک ڈاکٹر کے مطابق ہمارے گھروں کی ٹینکوں میں اتنا گندہ پانی ہوتا ہے کہ پینا تو دور کی بات، آدمی اس گندے پانی سے منہ نہیں دھو سکتا۔
گوادر میں میگا پراجیکٹس کے شروع ہونے کے بعد دس برس کے عرصے میں یہ چوتھی بار ہے کہ یہاں کے مکین پانی کے شدید بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہاں کی 80 فیصد آبادی ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہے اور یہی ان کا ذریعہ روزگار ہے۔ گوادر میں آپ کسی بچے سے بات کریں یا بڑے سے وہ یہی کہتے ہیں کہ ‘یہ اب ایک کچی بستی نہیں ہے حکومت نے یہاں بندرگاہ بنائی، ایک اور ائیر پورٹ بن رہا ہے یہاں بزنس کی بات ہو رہی ہے تو ہمیں پانی اور بجلی کیوں نہیں دے سکتے۔’ تین اطراف میں پانی سے گھرے اس شہر کو ‘پیاسا شہر’ کہا جاتا ہے۔ مقامی ماہی گیر کہنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ پانی ہم کیسے پیئں، چلیں ہم میں سے کچھ تو روز مارکیٹ سے فلٹر شدہ گیلن 80 سے 100 روپے میں خرید لیں گے۔ کوئی زیادہ قوت رکھتا ہو تو منرل واٹر کی ایک دو بوتلیں 50 سے 60 روپے میں روز خرید لے گا لیکن یہ بتائیں کہ غریب کیا کرے، وہ تو یہی پانی پی کر بیمار ہونے پر مجبور ہے کیونکہ اس کے پاس اسے ابالنے کے لیے نہ سلنڈر ہے نہ وافر مقدار میں لکڑی۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال آئے روز میڈیا پر بلوچستان کی بدلتی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہیں لیکن آج تک کسی صحافی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ یہ سوال کرسکے کہ بلوچستان کے دوسرے شہروں سمیت گوادر کے اندر جو واٹر فلٹریشن پلانٹ بند پڑے ہیں ان کی مرمت وغیرہ کرکے دوبارہ اس قابل بنایا جائے کہ گوادر کے رہائشی صاف پانی پی سکیں۔
ڈی سیلینیشن کا پلانٹ گوادر شہر سے 35 کلومیٹر دور نیو انٹرنیشنل ائیر پورٹ کے پاس واقع ہے اور ایک ارب کی لاگت سے لگایا گیا تھا۔ منصوبے کے مطابق اس سے 20 لاکھ گیلن پانی روزانہ صاف ہونا تھا لیکن ایسا نہیں ہو پایا۔
2010کے بعد اسے چند دن کے لیے چلانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ 20 لاکھ تو نہیں دو سے تین لاکھ گیلن پانی صاف کر پایا اور پھر ناکارہ ہوگیا۔ اس واٹر پلانٹ کو مسلم لیگ ن کی حکومت نے تکنیکی کام کروانے کے بعد گوادر کے رہائشیوں کے لیے صاف پانی پینے کے قابل بنا دیا تھا لیکن موجودہ حکومت نے اس پر توجہ دینے کی کوشش تک نہ کی۔ بات صرف یہی نہیں ختم ہوتی بلکہ گوادر کی تحصیل جیونی میں بھی ایک ناکارہ ڈی سیلینیشن پلانٹ موجود ہے۔ پسنی کا پلانٹ تو مکمل ہی نہیں ہوسکا اور سنگارا پلانٹ بھی چل نہیں پایا۔ ایف ڈبلیو او کا ایک واٹر فلٹریشن پلانٹ سربندر میں ہے اور کام کر رہا ہے لیکن اس میں زیادہ پانی صاف کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ جبکہ سمندر کے کھارے پانی کو قابل استعمال بنانے کے لیے چین نے گوادر پورٹ پر ایک واٹر فلٹریشن پلانٹ لگایا ہے لیکن یہ گوادر کے شہریوں کے لیے نہیں ہے۔ پاکستانی حکام گوادر پورٹ میں چینی حکام سے بات کر رہے ہیں کہ وہ شہر کی پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے مدد کریں۔ گوادر شہر کو دو لاکھ گیلن پانی ملے گا لیکن یہ پانی شہر کی ضرورت کے لیے بہت کم ہے اور یہ پانی حکومت بلوچستان کو خریدنا ہوگا، جس کی ادائیگی گوادر پورٹ آپریشنل کرنے والی چینی کمپنی کو کرنی ہوگی، جس پر بلوچستان حکومت تذبذب کا شکار ہے۔
گوادر میں ماضی میں کھارے پانی کے ان گنت اور میٹھے پانی کے چند ہی کنویں ہوتے تھے لیکن تب آبادی بہت کم تھی اور لوگوں کی ضرورت پوری ہو جاتی تھی مگر اب آبادی اتنی بڑھ چکی ہے کہ لوگ پیسے دے کر پانی حاصل کرنے پر مجبور ہیں ۔ گوادر کی مختلف مساجد میں اب بھی وہ پرانے دور کے کنویں موجود ہیں جو نمازیوں کی پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن یہ کنویں بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے سوکھ رہے ہیں۔
گوادر شہر کو پانی کی کل طلب 11.33 ایم جی ڈی ہے جبکہ اس وقت فقط 4.05 ایم جی ڈی پانی کی سپلائی ہو رہی ہے۔ گوادر میں مختلف پراجیکٹس سے منسلک لوگ اور باہر سے جانے والے سیاح بھی اسے رہنے کے لیے یہ ایک بہت مہنگا شہر قرار دیتے ہیں۔ جب گوادر میں ترقی اور سی پیک کے پراجیکٹس کی بات کی جاتی ہے تو لوگ پانی اور بجلی کا مطالبہ بھی دہراتے ہیں۔
میری وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے درخواست ہے کہ میں آپ کو آپ کا وعدہ یاد دلاتی جاوں کہ “قومیں سڑکیں بنانے سے نہیں بنتی بلکہ انسانی صحت کی بینادی سہولیات فراہم کرنے سے بنتی ہے”۔ لہذا آپ سڑکوں کی طرف کم توجہ دیں اور ملک کے دور دراز علاقوں تک صاف پانی پینے کے لئے مہیا کریں۔ کراچی کے لیے آپ نے گیارہ سو ارب روپے مختص کیا تھا لیکن ابھی تک وہاں ایک بھی میگا پروجیکٹس شروع نہ ہوسکا، اسی طرح آپ نے جنوبی بلوچستان کے لیے اربوں روپے کا بجٹ مختص کیا لیکن وہاں کے شہری صاف پانی پینے کے لئے ترس رہے ہیں۔ آپ اپنی قوم کے مطالبات کو مدنظر رکھیں اور ان کی خواہشات کے عین مطابق فیصلے کریں ورنہ یہ قوم آپ کو ہمیشہ کے لیے ریجکٹ کر دے گی۔