تحریر: مقبول خان
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کی پوتی اور پیپلز پارٹی (ش۔ ب) کے بانی شہید میر مرتضےٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو سیاست کے میدان میں آنے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ ان کے لئے راستہ بھی ہموار کیا جارہا ہے۔ اس بات کا عندیہ ذوالفقار علی بھٹو کی پریس کانفرنس میں کہی گئی اس بات سے ملتا ہے، جس میں جونیئر بھٹو نے اپنی رہائشگاہ میں ایک پر ہجوم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں خود اپنی سیاسی پارٹی بنانے کی کوشش کر رہا ہوں، میری ہمشیرہ فاطمہ بھٹو آرہی ہیں، ہم ان کے ساتھ اپنی پارٹی کا اعلان کر یں گے۔ اس پارٹی میں ہمارا یوتھ ونگ ہمارے ساتھ ہوگا، ہم نوجوانوں کی طاقت سے موجودہ نظام کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل زکر ہوگا کہ فاطمہ بھٹو اس سے قبل سیاست سے اپنی عدم دلچسپی کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ شاید 2 برس قبل ایک غیر ملکی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے فاطمہ بھٹو نے کہا تھا کہ وہ سیاست سے زیادہ لکھنے پڑھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ صحافی اور لکھاری ہی ان کے ہیرو رہے ہیں۔ لیکن پاکستان میں موروثی سیاست اتنی ظالم ہے کہ آج کے بہت سے سیاستدانوں کو اپنی جانب بل آخر کھینچ ہی لیتی ہے۔ شاید اب فاطمہ بھٹو کو بھی پاکستان میں موروثی سیاست نے ان کو اپنی جانب کھینچ لیا ہے۔ فاطمہ بھٹو بھی اگر میدان سیاست میں سرگرم ہوتی ہیں تو وہ بھی موروثی سیاست ہی کی نمائندہ کہلائی جائیں گی۔ لیکن یہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ایک نیا اور تاریخی موڑ ہوگا، کیونکہ اس وقت ملک کے سیاسی منظر نامے میں بھٹو خاندان کے افراد کے علاوہ عمران خان ہی وہ سیاسی قائد ہیں، جو معتبر غیر ملکی جامعات سے فارغ التحصیل ہیں۔ اس کے علاوہ فاطمہ بھٹو کو پاکستان کی وہ پہلی سیاستدان کہا جاسکتا ہے، جو عملی سیاست میں حصہ لینے والی واحد سیاستدان ہیں جو چار کتابوں کی مصنفہ ہیں۔

پاکستان کے ممتاز سیاسی خانوادے سے تعلق رکھنے والی فاطمہ بھٹو کا شمار اس وقت پاکستان کے ان ادیبوں اور شاعروں میں ہوتا ہے جن کی کتابیں انگریزی پڑھنے والی دنیا میں بے حد مقبول ہیں۔ انہوں نے کم عمری ہی میں بحیثیت ادیبہ خود کو منوایا اور ایسی منزل کو چھو لیا جو کسی بھی بڑے سے بڑے ادیب اور شاعر کا خواب ہوتا ہے۔ ان کی نئی کتاب سونگز آف بلڈ اینڈ سورڈ (لہو اور تلوار کے گیت) کئی ممالک میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئی ہے، یہ کتاب تیزی فروخت ہونے والی کتابوں کی فہرست میں شامل ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ عالمی شہرت یافتہ ادیبہ فاطمہ بھٹو کا یہ اردو زبان میں پہلا ناول ہے۔ فاطمہ بھٹو کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد ان کا پہلا اردو ناول شائع ہو ا ہے۔ فاطمہ بھٹو کی اپنی خواہش تھی کہ اس ناول کو ان کے اپنے وطن کی اردو ادبی دنیا میں بھی متعارف کروایا جائے۔ یہ اعزاز جمہوری پبلیکیشنز کو حاصل ہوا ہے۔ جنہوں نے فاطمہ بھٹو کی اس خواہش کے مطابق اس ناول کو اردو ادب کا حصہ بنا دیا۔
پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی اور میر مرتضیٰ کی بیٹی فاطمہ بھٹو کی اپنی یادداشتوں اور انٹرویوز پر مبنی ’لہو اور تلوار کے گیت، ایک بیٹی کی یادیں‘ کے نام سے لکھی کتاب مختلف پہلووں کی وجہ سے دلچسپ ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ کے بعد حقائق پر مبنی کئی باتوں پر سے پردہ اٹھتا ہے جبکہ اس خاندان کے اندر کھچاو اور آنے والے وقتوں کا پتہ بھی دیتی ہے۔کتاب کے آغاز میں ہی فاطمہ نے بڑی خوش اسلوبی سے اپنی ذاتی پسند اور ناپسند واضح کرتے ہوئے سیاسی حریف کا بھی فی الوقت تعین کر دیا ہے۔ اس کتاب میں صدر آصف علی زرداری کے لیے ان کے پاس کوئی اچھی باتیں لکھنے کو نہیں تھیں۔ اس ناپسندیدگی کا زیادہ پس منظر سیاسی ہے۔ یہ نا پسندیدگی ماضی میں کافی دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ کتاب کے مندرجہ جات کے مطابق میر مرتضیٰ بھٹو نے 1988 کے انتخابات میں آصف علی زرداری کو لیاری سے پارٹی ٹکٹ دینے کی شدید مخالفت کی تھی لیکن ان کی بہن بے نظیر بھٹو نے ایک نہ سنی تھی۔ یہ صدر ہی تھے جنہوں نے میر مرتضیٰ بھٹو کی ہلاکت کی خبر ایک پریشان فاطمہ کو ٹیلیفون پر سنائی تھی۔ شاید اسی وجہ سے انہوں نے آصف کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ خاندان کی ایک ایسی شخصیت تھیں ’جنہیں کوئی بھی پسند نہیں کرتا تھا‘۔ اس کتاب میں تنقید کا نشانہ محض صدر زرداری ہی نہیں بینظیر بھٹو مرحومہ بھی رہی ہیں۔ ان پر تنقید میر مرتضی کو وطن واپس لوٹنے سے منع کرنے اور شاہنواز بھٹو کے قتل کا مقدمہ دوبارہ نہ کھولنے کی وجہ سے کی ہے۔
افغانستان کے دارلحکومت کابل میں ایام جلاوطنی میں جنم لینے والی خوبرو ادیبہ فاطمہ بھٹو کے دادا ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے خون سے عوامی جدوجہد کی تاریخ رقم کی اور اب ان کی پوتی فاطمہ بھٹو نے اپنے قلم کی روشنائی سے اس ناول سمیت دیگر تحریروں کے ساتھ پاکستانی ادب میں شان دار حصہ ڈالا ہے۔ فاطمہ بھٹو 29 مئی 1982 کو پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی، میر مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی اور بینظیر بھٹو کی بھتیجی فاطمہ بھٹو افغان دار الحکومت کابل میں پیدا ہوئیں ،جہاں ان کے والد جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ فاطمہ بھٹو کی والدہ فوزیہ فصیح الدین بھٹو افغان وزارت خارجہ اہلکار کی بیٹی تھیں۔ ان کی سوتیلی والدہ غنویٰ بھٹو اس وقت پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کی چیئرپرسن ہیں۔ فاطمہ بھٹو کے والد میر مرتضیٰ بھٹو 20 ستمبر 1996 کو اپنی بہن بینظیر بھٹو کے دور وزارت عظمیٰ میں قتل کر دیے گئے تھے۔ فاطمہ بھٹو نے ابتدائی تعلیم دمشق (شام) میں حاصل کی۔1993 میں وہ اپنی سوتیلی والدہ غنویٰ بھٹو اور چھوٹے بھائی ذوالفقار بھٹو جونیئر کے ساتھ پاکستان آگئیں۔ انہوں نے کراچی امریکن اسکول سے او لیول کیا۔ پھر 2004 میں کولمبیا یونیورسٹی، نیویارک سے امتیازی نمبروں کے ساتھ گریجویشن کیا۔ گریجویشن میں ان کا خاص مضمون مشرق وسطیٰ میں بولی جانے والی زبانیں اور کلچر تھا۔2005 میں انہوں نے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقین اسٹیڈیز سے”ساوتھ ایشین گورنمنٹ اور سیاسیات“ میں ماسٹرز کیا۔ فاطمہ بھٹو شاعرہ اور ادیبہ ہیں اور وہ پاکستان، امریکہ اور برطانیہ کے مختلف اخباروں میں کالم بھی لکھتی ہیں۔1997 کے دوران 15 برس کی عمر میں فاطمہ بھٹو کا پہلا شعری مجموعہ اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس پاکستان سے شائع ہو اجس کا عنوان ”وسپئرز آف دی ڈیسری” (صحرا کی سرگرشیاں) تھا۔ 2006 میں ان کی دوسری کتاب 8 اکتوبر 2005ء کو آزاد کشمیر اور صوبہ سرحد میں آنے والے زلزلے کے موضوع پر شائع ہوئی۔ ان کی تیسری کتاب ”سانگس آف بلڈ اینڈ سوورڈ” جو اردو زبان مین بھی (لہو اور تلوار کے گیت) کے عنوان سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔معروف مصنفہ اور سماجی کارکن فاطمہ بھٹو بھارتی صحافی اور مصنفہ سونیا فالیرو کے ساتھ ’غزہ: ایک نسل کشی کی داستان‘ (غزہ: دی اسٹوری آف اے جینوسائڈ) کو مرتب کریں گی۔ مذکورہ کتاب فلسطین میں جاری انسانی المیے کو قلم بند کرنے اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک کوشش ہوگی۔ یہ کتاب رواں برس اکتوبر کو ورسو بکس کے تحت شائع کی جائے گی اور اس کی تمام آمدنی اقوامِ متحدہ کی ریلیف ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین کے ذریعے براہِ راست فلسطینی عوام کی مدد کے لیے استعمال کی جائے گی۔ مذکورہ کتاب کو ’انتہائی فوری اور طاقتور مجموعہ‘ قرار دیا جا رہا ہے، جس میں ذاتی گواہی، شاعری، فوٹو گرافی، فن پارے اور محاذِ جنگ سے رپورٹنگ شامل ہوگی۔ کتاب کے سرورق کا ڈیزائن چنٹل جحچان نے تیار کیا ہے، جس میں فلسطینی ثقافت کی علامتیں جیسے کہ کفیہ اور زیتون کے درخت شامل ہیں۔ کتاب میں ان ممتاز شخصیات کی تحریریں شامل ہیں جنہیں فلسطین بک ایوارڈ، عرب امریکن بک ایوارڈ، نیشنل بک ایوارڈ، پلٹزر پرائز، گاندھی پیس ایوارڈ اور ایمی ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔
اپنے مذہبی عقیدے کے بارے میں، فاطمہ بھٹو نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ ایک ثقافتی مسلمان ہیں اور خود کو سیکولر سمجھتی ہیں البتہ وہ مسلمانوں اور اسلام سے جذباتی لگاو رکھتی ہیں۔ فاطمہ بھٹو نے متعدد مواقع پر اسلام کا دفاع کیا اور مسلم خواتین کے برقع پہننے کے حق کی بھی حمایت کی۔ فاطمہ بھٹو کو سماجی فلاح و بہبود کے کاموں سے گہری دلچسپی ہے، بالخصوص سندھ کی جیلوں میں قید خواتین کے ساتھ ہونے والا سلوک، ان کی توجہ کا خاص مرکز ہے۔ وہ نہ صرف اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ لکھتی رہی ہیں، بلکہ باقاعدگی کے ساتھ لاڑکانہ خواتین جیل کا معائنہ بھی کرتی ہیں۔ انھیں کراچی میں کچی آبادیوں میں بسنے والے لوگوں کے مسائل سے بھی گہری دلچسپی ہے۔ فاطمہ بھٹو نے گراہم کے ساتھ 70 کلفٹن، کراچی میں 27 اپریل 2023 کو شادی کی۔ فاطمہ بھٹو کے شوہر کا تعلق امریکا سے ہے اور وہ 1982 میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک کاروباری شخصیت ہیں۔ فاطمہ بھٹو سے شادی سے قبل انھوں نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام تبدیل کرکے جبران رکھ لیا۔
اب فاطمہ بھٹو میدان سیاست میں قدم رکھنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ فاطمہ بھٹو کے میدان سیاست میں کردار کے حوالے سے کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ جن میں دو سوال سر فہرست ہیں، کیا وہ عملی سیاست میں حصہ لے کر وہی کردار ادا کرنے کی خواہشمند ہیں ان ان کی پھوپی محترمہ شہید بھٹو نے ادا کیا تھا؟ کیا وہ بلاول بھٹو طرح اپنے بھائی ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی کردار کی خواہاں ہیں؟ ان سوالات کے جواب فوری طور پر کسی کے پاس نہیں ہیں۔ ان سوالات کا جواب آنے والا وقت ہی بہتر طور پر دے سکے گا۔