تحریر: محمد امنان
کورونا وائرس کا خطرہ ٹل جائے گا تو اس کے بعد کیا ہو گا؟ پھر سے انسان انسان کو مارنے اور تنگ کرنے کے منصوبے بنائے گا؟ کیا ہم اس وبا سے کوئی سبق سیکھ کر ایک قوم بن پائیں گے؟ کیا ہم منافع خوری، جھوٹ، مکرو فریب، دروغ گوئی، ایذا رسانی، غیبت، انسانی حقوق کی پامالی، اپنوں کا حق کھانا یا برائی سے جڑے عوامل جو ہمارے معاشرے میں حد درجہ سرایت کر چکے ہیں نکل پائیں گے؟ یہ سب سوال بعد کے ہیں کیونکہ ہمارا مجموعی رویہ و مشغلہ اکثر معاملات کو کل پہ ٹالنا ہے۔
حالیہ وائرس نے دنیا کے 190 سے زائد ممالک کو لپیٹ لیا ہے اور دن بدن پھیل رہا ہے۔ انسان جو ستاروں سے آگے جہان تلاش کر چکا ہے دیگر سیاروں پہ زندگی کی کھوج لگا کر وہاں بسنے کی تیاریاں کر رہا تھا کہ اچانک سے جکڑ دیا گیا ہے۔ یہ اسکی سرکشی کی سزا کہئیے، قدرتی آفت کہئیے یا جو بھی کہہ لیجئیے ایک وائرس جسے آپ اسکے ہجم یا سائز کے اعتبار سے معمولی کہہ سکتے ہیں۔ جسے خوردبینوں کے ذریعے لاکھوں بار زوم کرکے اسکی ہئیت اور شکل یا ساخت بارے جان کر اسکا ماڈل بنایا گیا ہے۔
قطعی معمولی نہیں ہے یہ اپنی عادات و خصائل کے اعتبار سے غیر معمولی وائرس ہے جو طبی اعتبار سے انسانی زندگیوں پر اثرانداز بلکہ یوں کہئیے برق رفتاری سے حاوی ہو رہا ہے۔ اس وائرس نے انسانی رویوں موسم کرہ ارض کے نظام انسانی، قدرتی نظام ، جذبات، حکومتیں، سیاست، جنگیں، رشتے داریاں، محبت، قرابت، احساسات، خوشی وغمی، مذکر مونث، غرضیکہ ہر طرح سے متاثر کیا ہے اور کررہا ہے۔
موسمی تبدیلی کی بات ہو تو اس وائرس کی وجہ سے دنیا کے آلودہ ترین شہروں کے ائیر انڈیکس میں زبردست تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ ارد گرد ماحول پہ نظر دوڑائیں اور مشاہدہ کریں تو چرند پرند، شجر پھول پودے ہوائیں اور فضائیں الگ ہی انداز میں مست ہیں۔ بس پریشان و فکر مند ہے تو صرف حضرت انسان جس نے اس کرہ ارض کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ کر اسے اپنے طریقے سے استعمال کرنا چاہا لیکن نظام قدرت نے تمام تدبیریں الٹ ڈالیں۔
خیر اس وائرس کے باعث سوچ و تخیل اور رویوں میں بھی تبدیلی آئی ہے یا کہہ لیجئیے یہ وائرس روزمرہ کی روٹین کو بدل چکا ہے۔ قرنطینہ کا لفظ شاید کم کم ہی سنا پڑھا جاتا تھا اب تمام لوگ اس میں رہنے پہ مجبور ہیں۔ عادات و اطوار کے بدلائو کا موجب یہ وائرس خاندانی نظام کو پھر سے ایک بار جوڑ رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کے دور میں مشینوں سے چھٹکارا دلا کر انسان کو انسان کے سمجھنے میں معاون ثابت ہو رہا ہے لیکن اسکے بہت سے منفی اثرات دنیا کے دیگر ممالک میں دیکھنے میں نظر آ رہے ہیں۔
یعنی چین کے شہر ووہان جہاں سے یہ وائرس پھوٹا وہاں پر طلاقوں کی شرح میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے 2018 میں چین کے اسی شہر ووہان میں 45 لاکھ گھر ٹوٹے تھے۔ اب چائینیز ماہرین کے مطابق حالیہ وبا کے بعد صورتحال کھلنے سے اس شرح میں اضافہ ہو رہا ہے دفاتروں میں طلاقوں کے کیسز کی فائلوں کی بھرمار ہے۔ وینکوور میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں نظر آیا اور برطانیہ میں بھی ڈومیسٹک وائلنس کے کیسز کی شرح بڑھ رہی ہے۔ خواتین کے تشدد کے حوالہ سے ماسک 19 ہیلپ لائن بنا دی گئی ہے اور خواتین کو تشدد کے بعد پناہ لینے کے لئے میڈیکل سٹورز کا رخ کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں کیونکہ پولیس براہ راست میڈیکل سٹوروں سے رابطے میں ہے۔
بھارت میں بھی خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لئے ہیلپ لائن بنائی گئی ہے بھارت سے یاد آیا بی جے پی کے سبرامنئین سوامی کورونا وائرس کی وجہ مسلمانوں کو قرار دے رہے ہیں۔ ہمارے یہاں کورونا وائرس شیعہ، سنی، وہابی وغیرہ ہے۔
معیشت پر بھی اس وائرس نے وہ کاری ضربیں لگائی ہیں کہ ماہرین معاشیات 1029 سے 1938 کے درمیان گریٹ ڈپریشن کے دور کو بھول کر کورونا کے آفٹر شاکس کو معیشت پر گریٹ ڈپریشن سے بھی برے اثرات مرتب کرنے کی پیشن گوئیاں کر رہے ہیں۔ معیشت سے ایک اور بات یاد آئی کہ نظام معیشت کے برے اثرات بھی صرف غربا پر اثر انداز ہوں گے۔ کیونکہ دیوالیہ ہونے کی صورت میں بینک ریپسی پروٹیکشن کا سسٹم موجود ہے جس کے تحت امیروں کے شاہانہ طرز زندگی میں کوئی فرق نہیں آئے گا بلکہ انہیں قانون تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ جس کی حالیہ مثال وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بجائےغریبوں کو پہلے راشن پہچانے کے ایکسپورٹرز کو ٹیکس ریفنڈ کے چیک تھمانے کی صورت دیکھنے میں آئی ہے۔
ملک پاکستان اور جمہوریت کی بات کی جائے تو یہاں ہمارے ہاں کورونا فی الحال تہوار کی صورت منایا جا رہا ہے دیگر تہواروں کی طرح تمام انسانی ہمدردیاں مجموعی طور پر بالائے طاق رکھ کر منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا بازار گرم ہے۔ حکومت اپنے تئیں کوششیں کر رہی ہے احتیاطی تدابیر بارے بارہا گذارشات اپیلیں اور حکم صادر کئے گئے مگر ہمارا ہجوم ہے کہ ڈھاک کے وہی تین پات نماز جمعہ کے اجتماع سے روکنے پر پولیس پر جتھوں کی صورت حملہ آور ہونا راشن کی تقسیم پہ فوٹو بازیاں، پھر راشن کی تقسیم میں چھینا جھپٹیاں، سفید پوشوں کی عزت نفس مجروح کرنا اور وبا کے موسم میں لگی ایمرجنسی کو انجوائے کرنا فی الحال یہاں کے باسیوں کا معمول ہے۔
اصل مسائل کا حل اخلاقی اقدار کو درست سمت لے جانے کی کوشش اور توقع عبث ہے۔ پیسوں والے سامان ضروریہ سے گھروں کو بھر کے بیٹھے ہیں مزدور سڑکوں پہ بھیک مانگ رہے ہیں انکی حالت دیکھ کر دل پھٹتا ہے مگر ہم اخلاقی طور پہ دفن ہو چکے ہیں۔ رہی سہی کثر حکومت کے اقدامات پوری کر رہے ہیں ایک مزدور نے نم آنکھوں سے کہا تھا بھائی کورونا کا تو مجھے پتہ نہیں البتہ ہم دیہاڑی دار بھوک سے مریں گے ہماری لاشوں پہ سیلفیاں ضرور کھینچنا کیونکہ اصل میں وہ لاشیں تم پیٹ بھر کھانے والوں کی عقل، اخلاقیات اورغیرت کی لاشیں ہوں گی۔
کورونا کے بعد کے حالات جانے کیا ہوں گے راقم زندہ ہو گا یا نہیں البتہ راقم معاشرے کا حصہ ہے۔ کی بورڈ تھامنے سے قبل اپنے سمیت معاشرے کی جانب سے اخلاقیات کے قتل پر نوحہ کر لیا ہے۔ یاد آیا شام اور برما میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 16، 16 ہے یہاں ظلم کمایا گیا تھا۔ ادھر ہمارے لوگ اپنوں پہ ظلم کما رہے ہیں اسلئیے تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔
الامان الحفیظ