تحریر: صائمہ صمیم
روشن خیالی (انلائٹنمنٹ) ایک فکری، سائنسی، اور سماجی تحریک تھی جو 17ویں اور 18ویں صدی میں یورپ میں ابھری۔ اس کا بنیادی مقصد عقل، تجربے، اور سائنسی طریقہ کار کے ذریعے مذہب، روایتی عقائد، اور موروثی اقتدار کو چیلنج کرنا تھا۔ اس تحریک نے جدید جمہوریت، سیکولر معاشروں، اور انسانی حقوق جیسے نظریات کی بنیاد رکھی۔
روشن خیالی کی بنیادی خصوصیات:
عقل (ریزن)- علم اور حقیقت کے حصول کے لیے عقلی سوچ اور استدلال کو بنیادی ذریعہ مانا گیا۔
سائنس اور تجربیت (امپریسزم)- مشاہدے اور تجربے پر مبنی سائنسی طریقہ کار کو فروغ دیا گیا۔
آزادی (لبرٹی)- فرد کی آزادی، اظہار رائے، اور خودمختاری پر زور دیا گیا۔
انسانی حقوق (ہیومن رائٹس)- بادشاہوں اور مذہبی حکمرانوں کے بجائے عوامی حقوق اور جمہوریت کی حمایت کی گئی۔
سیکولرزم (سیکولزم)- مذہب اور سیاست کو الگ رکھنے پر زور دیا گیا۔
روشن خیالی کی وجوہات:
روشن خیالی اچانک نہیں آئی بلکہ کئی عوامل نے اس کی راہ ہموار کی۔
الف۔سائنسی انقلاب (سائنسٹفک ریولیوشن)
16ویں اور 17ویں صدی میں کوپرنیکس، گلیلیو، کیپلر، اور نیوٹن جیسے سائنسدانوں نے کائنات کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کی۔ ان کی دریافتوں نے ثابت کیا کہ زمین کائنات کا مرکز نہیں اور فطرت کے قوانین سائنسی اصولوں پر مبنی ہیں، نہ کہ مذہبی تشریحات پر۔
مذہب کی گرفت کا کمزور ہونا:
قرونِ وسطیٰ میں چرچ کا مکمل کنٹرول تھا، مگر پروٹسٹنٹ اصلاحات (ریفورمیشن) کے بعد مذہب کی گرفت کمزور ہونے لگی۔
1618-1648 کی تیس سالہ جنگ نے یورپ کو تباہ کر دیا، جس سے لوگوں میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف بیزاری پیدا ہوئی۔
لوگوں نے مذہب کے بجائے عقل اور سائنسی طریقہ کار پر یقین کرنا شروع کر دیا۔
مطلق العنان بادشاہت کے خلاف ردِعمل:
17ویں صدی میں یورپ میں بادشاہت کو خدائی حق (ڈیوائن رائٹ آف تھنک) کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، یعنی بادشاہ کو خدا کی طرف
سے حکمرانی کا اختیار حاصل تھا۔ روشن خیالی نے جمہوریت، مساوات، اور عوامی حکمرانی کے نظریات کو فروغ دیا۔
روشن خیالی کے اہم فلسفی جان لاک انسانی حقوق اور جمہوریت کا حامی تھا۔ ‘حکومت عوام کی مرضی سے ہونی چاہیے، اور اگر حکومت ظالم ہو تو عوام کو اسے بدلنے کا حق ہے’۔ اس کے نظریات نے امریکی اور فرانسیسی انقلاب پر گہرا اثر ڈالا۔
وولٹیر مذہبی انتہا پسندی اور مطلق العنان بادشاہت کے خلاف لکھا۔ اظہارِ رائے اور آزادی مذہب کا حامی تھا۔ چرچ کی طرف سے کیے گئے ظلم و ستم کی مخالفت کی۔
ڑاں ڑاک روسو ‘سوشل کنٹریکٹ’ (معاشرتی معاہدہ) کا نظریہ پیش کیا، جس کے مطابق عوام کو اپنی حکومت خود منتخب کرنی چاہیے۔ ‘انسان آزاد پیدا ہوتا ہے، مگر ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوتا ہے’۔ اس کا فلسفہ فرانسیسی انقلاب کا بنیادی نظریہ بنا
ڈیوڈ ہیوم مذہب کو تجرباتی اور سائنسی بنیادوں پر پرکھنے کا نظریہ دیا۔ اس نے کہا کہ مذہب اور خدا کے وجود پر شک کرنا فطری ہے، کیونکہ ان کا کوئی تجرباتی ثبوت نہیں۔
ایڈم اسمتھ معاشیات میں ‘آزاد منڈی’ (فری مارکیٹ) کا تصور دیا۔ ‘دولتِ اقوام’ (ویلتھ آف نیشن) میں سرمایہ داری (کیپٹلزم) کی بنیاد رکھی۔
روشن خیالی کے اثرات:
سیاسی اثرات:
امریکی انقلاب (1776)- امریکہ کی آزادی کی تحریک جان لاک اور روسو کے نظریات پر مبنی تھی۔
فرانسیسی انقلاب (1789)- روشن خیالی نے بادشاہت کے خاتمے، جمہوریت، اور انسانی حقوق کے نظریات کو فروغ دیا۔ جدید جمہوریت- آج کے جدید جمہوری نظاموں کی بنیاد روشن خیالی نے رکھی۔
سائنسی اور فکری اثرات:
سائنس کو مذہب سے الگ کر دیا گیا۔ جدید نفسیات، معاشیات، اور سیاسیات کا آغاز ہوا۔ جدید یونیورسٹیوں، تحقیقی اداروں، اور اخبارات کا قیام عمل میں آیا۔
مذہب پر اثرات:
مذہب کو سیکولرائز کر دیا گیا۔ چرچ اور ریاست کو الگ کر دیا گیا۔ عقل اور مذہب میں کشمکش پیدا ہوئی، جس کا اثر آج بھی موجود ہے۔
روشن خیالی کے خلاف ردِعمل:
روشن خیالی کی تحریک کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا گیا۔ کچھ طبقات نے اس کی مخالفت کی۔
روایتی مذہبی طبقہ- چرچ اور مذہبی ادارے اس تحریک کے سخت خلاف تھے۔
رومانویت (رومانٹزم)- 19ویں صدی میں رومانوی تحریک نے کہا کہ روشن خیالی زیادہ عقلی (اوورل ریشنل) ہوگئی ہے، اور اس میں جذبات، روحانیت، اور فن کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
مابعد جدیدیت (پوسٹ مونڈرزم)- 20ویں صدی میں نطشے، فوکو، اور ڈریڈا جیسے فلسفیوں نے کہا کہ روشن خیالی کے نظریات عقل پر غیر ضروری حد تک انحصار کرتے ہیں اور مطلق سچائی کا دعویٰ کرتے ہیں، جو ممکن نہیں۔