تحریر: اکرم خان
میڈیا ہاؤسز سے برطرفیوں کا سلسلہ جاری ہے، گذشتہ روز سماء ٹی وی سے مذید سترہ لوگوں پر روزگار کے دروازے بند کئے گئے ہیں۔ اسلام آباد سے سات اور پشاور سے دس ملازمین گھر بھیج دیے گئے ہیں۔ گذشتہ ماہ لاہور اسٹیشن سے بھی بائیس افراد فارغ کئے گئے تھے۔ بیس سے پچیس ہزار تنخواہیں وصول کرنے والے چھوٹے ملازمین پر یہ برق گری ہے اور حکومت بےحس، بنیا سوچ کی مالک ہے وہ خود سرکاری اداروں میں لوگوں کو بےروزگار کر رہی ہو تو نجی شعبے کو کیسے روک سکتی ہے۔
افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ کورونا وبا کے دوران حکومت کی جانب سے ملازمت سے نکالنے پر پابندی ہے لیکن حکومت خود اس ضابطے کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ سرکاری ریڈیو اور ٹیلی وژن سے ملازمین کو نکالا گیا ہے۔ سندھ حکومت نے کورونا وبا میں ملازمتوں کو قانونی تحفظ بھی دیا ہے تاہم اس پر عمل درآمد میں ایشوز سامنے آ رہے ہیں۔
وفاقی حکومت ہی لوگوں کی ملازمتوں پر چھری چلائے گی تو نجی شعبے کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔ عدالت کے دروازے پر دستک دی جاسکتی ہے، صحافی تنظیموں کا بھی کردار بنتا ہے تو وہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ بحران ہے کہ بڑھتا چلا جا رہا ہے، جو افراد روزگار پر ہیں بھی تو تنخواہوں میں مہینوں کی تاخیر، کٹوتی اور عدم ادائی کا شکار ہیں۔ کوئی امید بر نہیں آتی۔