اسلام آباد: ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے ایک خط کے ذریعے وفاقی وزیر مراد سعید کے ایما پر پاکستان پوسٹ اور حبیب بینک کے مابین ایک حالیہ غیر قانونی معاہدے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مراد سعید اور دیگر پر اس معاہدے کے عوض حبیب بینک سے 7 ارب روپے بطور رشوت وصول کرنے کا الزام ہے۔
گوگلی نیوز کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ اس بڑی ڈیل کے لئے حبیب بینک نے چار لوگوں کو سات ارب روپے بطور رشوت دیے ہیں۔ یہ معاہدہ کروانے میں وفاقی وزیر موصلات مراد سعید، چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک، سیکرٹری مواصلات ظفر حسن، اور ایڈیشنل ڈی جی فنانشل سروس اعجاز احمد منہاس کے نام آتے ہیں۔
ٹرانسپرانسی انٹرنیشنل نے اس معاہدے پراعتراضات اٹھائے ہوئے کہا ہے کہ اس میں یپرارولز کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے۔پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اٹھارٹی کی جانب سے بھی اس معاہدے پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ مزید براں اب یہ کیس سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی اپیل کی صورت میں موجود ہے جس کی جلد ہی سماعت ہونے والی ہے۔
گوگلی نیوز کے مطابق کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ شور مچانے والے وفاقی وزیر مراد سعید پر اب خود قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اربوں کا غیر قانونی کانٹریکٹ کرنے کا سکینڈل سامنے آگیا ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے پاکستان چیپٹر نے پاکستان پوسٹ کے ڈائریکٹر جنرل کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کو شکایت موصول ہوئی ہے کہ پاکستان پوسٹل سروسز کی ڈیجیٹلائزیشن کا 20 برسوں کے لیے دیا گیا 118 ارب روپے کا ٹھیکہ پیپرا رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نجی بینک ایچ بی ایل کودیا گیا ہے۔ ٹرانسپرنسی کے خط کی کاپیاں وزیراعظم ہاوس، ڈی جی نیب، وزیر اطلاعات، رجسٹرار سپریم کورٹ اور ایم ڈی پیپرا کو بھی بھجوائی گئی ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پوسٹل سروسز پر الزام ہے کہ اس نے فنانشل سروسز کی ڈیجییٹلائزیشن کے لیے حبیب بینک لمیٹڈ کو بیس سال کے لیے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹھیکہ دیا ہے۔ خط کے مطابق اس ٹھیکے کے لیے عوامی سطح پر کوئی ٹینڈر جاری نہیں کیا گیا جو کہ پاکستان پروکیورمنٹ رولز یعنی پیپرا قوانین 2004 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
واضح رہے کہ اس معاہدے کی رو سے ایچ بی ایل ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر اور استعداد کار بڑھانے کی صورت میں پاکستان پوسٹ میں سرمایہ کاری کرے گا۔ اس دوران بینک پاکستان پوسٹ کو جدید خطوط پر استوار کرے گا۔حبیب بینک ملک بھر میں پاکستان پوسٹ سروس کے دفاتر میں ایچ بی ایل کونیکٹ کے ذریعے برانچ لیس بینکنگ کی سہولیات فراہم کرے گا۔ معاہدے کے تحت حبیب بینک ملک بھر میں پاکستان پوسٹ کی عمارتوں میں اے ٹی ایم اور کیش ڈیپازٹ مشینیں بھی نصب کرے گا۔ پاکستان پوسٹ سے پنشن لینے والوں کو پنشن کی ادائیگی بھی ایچ بی ایل کونیکٹ سے ہوگی۔
معاشی ماہرین کے مطابق اگر بینک دس دنوں میں پنشن کی رقم پر چھ فیصد بھی منافع کمائے تو وہ ایک سال میں 11 کروڑ سولہ لاکھ جب کہ بیس سال میں دو ارب روپے سے زیادہ منافع بھی کما لے گا۔ لہذا اتنا بڑا کانٹریکٹ کرتے وقت کھلی بولی کا آپشن استعامل نہیں کیا گیا جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اس ڈیل میں مال بنایا گیا ہے اور چونکہ مراد سعید محمکے کے انچارج وزیر ہیں اس لئے کھرا ادھر جاتا دکھائی دیتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان پوسٹ کے پورے ملک میں بتیس سو سب پوسٹ آفسسز اور 9 ہزار کے قریب برانچ پوسٹ آفسز ہیں اور اس کا سالانہ والیم تقریباً 2 ہزارارب روپے بنتا ہے۔ جس میں ملٹری پینشنز، سویلین محکموں کی پینشین اور منی آرڈر کے ذریعے پیسے بھجوانا شامل ہے۔ ماضی میں پاکستان پوسٹ نے اپنے ادارے کو ڈیجیٹالائز کرنے کا ارادہ کیا تو کورین بینک کی جانب سے 23ملین ڈالر کا سافٹ قرضہ دینے کی آفر کی گئی جو 30سال بعد واپس کیا جانا تھا جس کے بعد 10سال کا گریس پریڈ بھی شامل تھا۔ اس کا مارک اپ ریٹ جو بینک نے آفر کیا تھا ایک فیصد سے بھی کم تھا۔
2018میں اس وقت کے سیکرٹر ی مواصلات ثاقب عزیز نے پاکستان پوسٹ کیلئے ایک نیا پراجیکٹ پلان کیا۔ یہ ایک ورلڈ بینک کا فنڈڈ منصوبہ تھا اور اس کے پیسے پہلے ہی وزارت خزانہ کے پاس موجود تھے۔ پاکستان پوسٹ نے صرف وزارت خزانہ سے اس پراجیکٹ کیلئے فنڈز حاصل کرنے تھے لیکن وزارت مواصلات نے اس پراجیکٹ پر موقف اپنایا کہ ہم سرکاری خزانے سے پاکستان پوسٹ کو ڈیجیٹلائز کرنے کیلئے کوئی پیسہ خرچ نہیں کریں گے۔اس کے بعد پاکستان پوسٹ اور وزارت مواصلات نے اخبارات میں اشتہار دیا کہ انہیں ایک بینک کی ضرورت ہے تاکہ پا کستان پوسٹ اُس کا ایجنٹ بن کر کام کر سکے۔ جس کیلئے حبیب بینک کو سلیکٹ کر لیا گیا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ حبیب بینک نے پاکستان پوسٹ کے2 ہزار ارب روپے سالانہ والیم پر نظر رکھی ہوئی تھی اس پراجیکٹ سے ایچ بی ایل کو اربوں کا فائدہ پہنچانے کیلئے پاکستان پوسٹ کے افسران کے ساتھ مل کر کاغذات میں سکیم بنائی گئی اور اس کے بدلے پیسے وصول کیے گئے۔ کیونکہ پاکستان پوسٹ کا سالانہ والیم تقریباً 2 ہزار ارب روپے ہے اور اسٹیٹ بینک کی پالیسی ہے کہ اگر کسی بھی اکاونٹ میں ایک رات تک پیسے رہتے ہیں تو اس بینک کو ان پیسوں پر فلوٹ کی صورت میں فائدہ پہنچایا جاتا ہے اور اگر اس کا پچیس فیصد بھی ایک رات کیلئے حبیب بینک کے اکاونٹ میں رہتا ہے تو سٹیٹ بینک کی پالیسی کے تحت بہت بڑا منافع حبیب بینک کو حاصل ہوگا۔
پاکستان پوسٹ اور حبیب بینک کے درمیان 3 جون 2020 کو یہ معاہدہ کیا گیا جس میں اعجاز احمد منہاس ایڈیشنل ڈی جی فنانشل سروسز نے پاکستان پوسٹ کی جانب سے اور حبیب بینک کی جانب سے جنرل مینجر اور نیشنل سیلز ہیڈ احمد نذیر منہاج نے دستخط کیے۔ حبیب بینک نے اس معاہدے کے تحت 4 ارب روپے کی اپ فرنٹ انوسٹمنٹ کرنا تھی جس میں آئی ٹی، انفراسٹرکچر، ہیومن ریسورس، ویلیو ایڈیشن وغیرہ شامل تھے جبکہ 20 سال میں ایک سو اٹھارہ ارب کی انوسٹمنٹ کا وعدہ بھی کیا گیا۔ اگرچہ یہ معاہدہ تین جون 2020 کو ہوا تھا لیکن حیرانگی کی بات ہے کہ حبیب بینک نے ایک ماہ پہلے ہی یعنی پانچ مئی 2020 کو اسٹام ایشو کروالیا اور اسی دن اٹارنی سے اس کی تصدیق بھی کروا لی حالانکہ کوئی بھی معاہدہ جب تک وزارت قانون سے اوکے نہیں ہوتا حکومت کا کوئی ادارہ وہ معاہدہ نہیں کر سکتا۔
یہ معاہدہ وزارت قانون کو منظوری کیلئے 21 مئی کو بھجوایا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ حبیب بینک کو کس نے یہ یقین دلایا تھا کہ آپ اشٹام پیپر ایشو کروا لیں اور معاہدہ آپ کے ساتھ ہی ہوگا جبکہ حکومت پاکستان کے قانون کے مطابق ایسے معاہدوں میں اشٹام پیپر حکومت کی جانب سے ہی ایشو کروایا جاتا ہے اور دونوں پارٹیز کے دستخط کے بعد ہی اٹارنی سے اس معاہدے کی تصدیق کروائی جاتی ہے۔ 3 جون کو معاہدہ ہونےکے بعد مختلف کمیٹیاں بنائی گئیں تھیں تا کہ اس معاہدے کا آپریشنل اور اکاونٹنگ پروسیجر شروع کیا جاسکے لیکن جب اکاونٹننگ پروسیجر کمیٹی کی جانب سےمعاہدے کی کاپی مانگی گئی تویہ معاہدہ ہی موجود نہیں تھا اور متعلقہ ونگ جس نے معاہدہ تیار کرنا تھا اس کو اس بارے علم ہی نہیں تھا۔
یہ معاہدہ اتنا سیکرٹ رکھا گیا تھا کہ ڈی جی پوسٹ کو اس معاہدے کی کاپی چار اگست کو فراہم کی گئی تھی۔ ڈی جی پوسٹ اخلاق رانا کے حکم پر ایڈیشنل ڈی جی فنانشل سروسز کی جانب سے معاہدے کی کاپی متعلقہ کمیٹٰی کو دی گئی جس کے بعد کمیٹی کی جانب سے یہ انکشاف کیا گیا کہ یہ معاہدے کی کاپی وہ نہیں ہے جو وزارت قانون کو فراہم کی گئی تھی اور ان کی جانب سے منظور کی گئی تھی۔ اس انکشاف کے بعد محکمہ میں تھرتھلی مچ گئی کیونکہ جب ایک دفعہ کوئی بھی معاہدہ اوکے ہو جاتا ہے تو اس میں ایک لفظ کی بھی تبدیلی خود سے نہیں کی جا سکتی اور ایسا کرنا غیر قانونی ہوتا ہے جس کے بعد ڈی جی پوسٹ کی جانب سے سیکرٹری مواصلات کو اس معاملے کے بارے میں آگاہ کیا گیا اور اس ایشو پر انکوائری کروانے کا بولا گیا۔ لیکن سیکرٹری مواصلات کی جانب سے کہا گیا کہ ڈیپارٹمنٹ اس معاملے کی انکوائری کرے۔ اس کے بعد انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی جس کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ اس معاملے پر فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ ایک ہفتے میں پیش کرے۔
ندا انعم اسسٹنٹ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اور عطا اللہ شاہ جو مطلقہ برانچ کے سپرٹنڈنٹ تھے ان کے بیانات قلم بند کیے گئے اور انہوں نے انکشاف کیا کہ سپیشل پراجیکٹ برانچ کو، جو معاہدے بناتی ہے، اس معاہدے کی ڈرافٹنگ سے لے کر فائنل کرنے تک لوپ میں ہی نہیں لیا گیا۔ یہ حکومت پاکستان کے سرکاری پروسیجر کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ تین طریقوں سے وزارت قانون کے معاہدے میں تبدیلیاں کی گئیں جن کا مقصد حبیب بینک کو فائدہ پہنچانا تھا۔ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں اعجاز منہاس کو معاہدے میں تبدیلی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا کیونکہ اعجاز احمد منہاس نے یہ سارا معاہدہ آرکیٹیکٹ کیا تھا اور وہ ہی حبیب بینک سے ذاتی واٹس ایپ اور ذاتی ای میل کے ذریعے رابطے میں تھا۔ تیرہ جنوری کو مراد سعید کی منظوری سے اعجاز منہاس کو ایکٹنگ ڈی جی مقرر کردیا گیا حالانکہ انکوائری کمیٹی نے اس سارے معاہدے میں تبدیلیاں کرنے اور پاکستان پوسٹ کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار منہاس ہی کو ٹھہرایا تھا۔
یاد رہے کہ اس معاملے کے علاوہ دیگر تین انکوائریوں میں مجرم ثابت ہونے کے باوجود مراد سعید نے پانچ سینیر افسران کو سپر سیڈ کروا کر اعجاز منہاس کو گریڈ 22 میں پروموٹ کرایا تھا تاکہ ان سے اپنی مرضی کے کام کروائے جا سکیں۔