تحریر: کنول زہرا
میرا کپتان گرفتار ہوگیا اور صحافت کے چیمپئن یوٹیوبز کو سانپ سونگھ گیا، کل تک جو کہہ رہے تھے کایا پلٹ گئی، گیند خان کے کورٹ میں آگئی ہے، کوئی کہہ رہا تھا خان ورلڈ چیمپئن ہے، اس کے پاس بڑے کارڈز ہیں، کوئی کہہ رہا تھا یہ جانتے نہیں ہیں خان کو وہ مسکرا مسکرا کر مار دیے گا، ان ناصحافی کے لئے عرض ہے، سرکار خان صاحب کوٹ لکھپت جیل میں ہیں، کچھ عرصے بعد انہیں اڈیالہ جیل منتقل کردیا جائے گا، سنا ہے کوٹ لکھپت جیل میں بہت مچھر ہوتے ہیں جبکہ یہ بھی سنا ہے کہ اڈیالہ جیل کی چھپکیاں بہت خطرناک ہیں اور پنکی بی بی نے چھپکلی مارنے سے منع کیا ہوا ہے ورنہ ان کے عملیات پھیکے پڑ جائیں گے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کو اپنے جن کارکناں پر ناز تھا آج ایک بھی ان کے پاس نہ تھا، وہ میڈیا جو ہمہ وقت زمان پارک کے باہر موجود رہتا تھا آج ایک ڈی ایس این جی نظر نہ آئی، وہ انصحافی جو ہر وقت خان صاحب خان صاحب کہتے نہ تھکتے تھے آج ان کی پرچھائی تک نظر نہ آئی حد ہے ان کے سوشل میڈیا اکائونٹس بھی خاموش ہیں۔
یوں لگتا ہے 2017 کی کہانی نئے کردار کی صورت میں سامنے آئی ہے، بہت ممکن ہے عمران خان کو وقتی ریلیف مل جائے مگر اب وہ چیئرمین تحریک انصاف بھی نہیں رہے ہیں، ایسا ہی کچھ نوازشریف کے ساتھ ہوا تھا۔ عمران خان اپنے مخالفین کو جیل میں سہولیات دینے کے خلاف تھے، آج شکر کر رہے ہونگے کہ ایسی کوئی قانون سازی نہیں ہوئی، انہیں مسلم لیگ نون کا شکر گزار ہونا چاہئے کیونکہ ان ہی کی قانون سازی کی بدولت خیانت داری کی سزا 5 سال ہوئی ہے ورنہ یہ قانون تاحیات کا تھا۔ ویسے اس سلسلے میں انہیں فواد چوہدری کو بھی تھنکس کرنا چاہئے، بہرحال تحریک انصاف کے وظیفہ خور انصحافیوں کو نمک کا حق تو ادا کرنا چاہئے، کوئی تو جھوٹی تسلی دیدیں، کوئی تو ولاگ کر دیں۔