تحریر: وارث رضا
ہمارا “سندھو” یعنی دریا روانی سے بہنے کے اصول پر چلتا ہے اور جہاں دریا بپھرتا ہے تو تباہی زمین عوام اور نسل کا مقدر بن جاتی ہے۔ گویا ہمارا سندھو ہمیں پیغام دیتا ہے کہ اپنے اندر روانی پیدا کرو اور جذبات کو سنبھال کر رکھو کہ جذبات عقل اور انسان کے دشمن ہوتے ہیں۔
دوسرا ہمارے “سندھو” کا سب سے قیمتی سرمایہ “پلو” ہے جس کا کردار “مزاحمت” ہے اور “پلو” دریا کے مخالف سمت چل کر اپنی طاقت بھی بچاتا ہے اور اپنی مزاحمت پر سمجھوتا بھی نہیں کرتا۔
بس یہی ہمارا “سندھو” اپنے بسنے والے انسانوں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی طاقت بھی سنبھالیں اور اپنے جذبات کو بھی کنٹرول کرکے “سندھو” کے مزاحمتی کردار کو بھی کسی کے ہاتھ میں نہ جانے دیں۔
اب آجائیے کہ ہم سندھیوں کو کیا کرنا ہے۔
سندھی کا مطلب ہی ایمانداری، سادگی اور محنت ہے، سندھی زمین سے پیار کرتے ہوئے اس سے غذا حاصل کرنا ہے۔ اور زمین سے پیار کرنے کی وجہ ہی سے وہ زمین کو نقصان پہنچانے کی خاطر مزاحمت کرتا ہے مگر کیا مزاحمتی کردار اس وقت تک کامیاب ہو سکتا ہے جب تک وہ دشمن سے بچنے کی بہتر حکمت عملی ترتیب نہ دے۔۔۔؟؟؟ جس میں جذبات سے زیادہ عقل اور غور وفکر کا ہونا ضروری ہے۔
عمومی طور سے ھم سادہ لوح سندھیوں میں سے سادگی اور ایمانداری کو ختم کرکے اور اسے جذباتی کرکے حملہ کیا جاتا ہے۔ جو دشمن کا نہایت مہلک ہتھیار ہے، جس کو آج سمجھنا بہت ضروری ہے۔
یاد رکھیئے کہ یہ سندھ کی مزاحمتی سیاست اور مزاحمتی کرداروں کی ہی محنت ہے جس کی بدولت کسی نہ کسی طور سندھ علم و شعور کے ساتھ سیاسی بصیرت رکھتا ہے مگر کیا سندھ کی سیاسی بصیرت اور اس کا مزاحمتی کردار اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ جذباتی ہوکر سندھ کی سیاست “اسٹبلشمنٹ ایجنٹوں” کے ہاتھوں میں دے دیں۔۔ ۔ ہر گز نہیں۔۔ ۔
بس یہی کچھ اس جذباتی تحریک میں پہلے روز سے مجھے نظر آرہا ہے، جس کا ادراک سندھی دانش کو بھی آہستہ آہستہ ہو رہا ہے۔۔ ۔ ہمیں کیا کرنا چاہیئے یہ ایک طویل بحث ہے جو کبھی بیٹھ کر کی جائے گی۔
سر دست ہمیں اپنی “مزاحمتی سیاست” کو بچانا ہے جس کے لئے سیاسی اور نظریاتی طور سے خود کو پھر سے منظم کرنا ہے وگرنہ تمام تر مخالفت کے باوجود ہم پھر ایک “پنوں عاقل”چھاونی” بنوانے یا “کارپوریٹ فارمنگ” پر مجبور ہونگے۔ جب تک سندھ کے مقامی وڈیرے اور سردار یا مفاد پرست سیاسی افراد “اسٹبلشمنٹ” سے جڑے رہیں گے۔ سندھ کی سیاسی اور معاشی صورتحال بہتر نہیں ہوگی۔
سندھ کے سیاسی دوستوں یا رہنماؤں سے ناراضگی کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم اپنے گھر کو دشمن کے حوالے کردیں۔
سندھ کی ترقی بہتر سماجی سیاسی اور نظریاتی پہلو رکھنے سے ہی مضبوط ہوگی، جس میں غور وفکر کرنا اور “سندھو” کی مانند برداشت اور در گزر کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔ جذبات سے پرہیز ہی ہمیں”کارپوریٹ فارمنگ” کے “ہاری دشمن اقدامات”سے بچائے گا۔ ہم کیوں نہیں “کوآپریٹو فارمنگ” کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ شرط رکھیں کہ زمین کی ملکیت مالکانہ حقوق”پر مقامی”ہاری” کو دی جائے اور تمام زمین پر مقامی “ہاری” کو کاشت کے تمام ذرائع حکومت مہیا کرے کہ زمین کے دکھ اور اس سے گفتگو “ہاری” اور “کسان” سے زیادہ کرنا کوئی نہیں جانتا۔
کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے وڈیروں، سرمایہ داروں، جنرلوں کو زمین دینے کے خلاف ہی دراصل اس تحریک کا بنیادی تقاضہ تھا ہے اور رہے گا۔ مگر کب۔۔ ۔
جب تک سندھ اپنے سماجی سیاسی اور نظریاتی ماحول میں”مزاحمت” کی شعوری فکر شامل نہ کرے گا۔۔ ۔
آج زخمی سندھ کو نظریاتی سیاست کی ازحد ضرورت ہے جس میں اعتبار کے لئے آپسی میل جول اور بہترین رابطے ہونا ضروری ہے۔۔ ۔ یہی “سندھو” کی نسل کی ضرورت ہے۔