دوبئی (بلومبرگ رپورٹ) جیسے ہی ارب پتیوں نے دبئی میں بڑے بڑے ولاز بنائے، شہر بینکاروں، ایگزیکٹوز اور سرمایہ کاروں سے بھرنے لگا، یہاں کی رہائشی غيداء کو اس کے کرائے کے مکان سے بے دخل ہونا پڑا۔ مالک مکان نے تین ہزار ڈالر ماہانہ کرایہ جو وہ اور ان کا شوہر مل کر ادا کر رہے تھے، دوگنا کردیا۔
اس جوڑے کو پہلے اپنا گھر چھوڑنے کو کہا گیا اور بتایا گیا کہ مالک اپنے خاندان کے ساتھ یہاں منتقل ہونا چاہتا ہے۔ تاہم اس کے فورا بعد مالک مکان نے 6 ہزار ڈالر ماہانہ کرائے کا اشتہار دیا۔ غيداء اب کرائے کے ضوابط کی خلاف ورزی کے تحت مالک مکان پر مقدمہ کر رہی ہیں۔
دبئی کی شناخت ایک بڑی حد تک ٹیکس سے پاک طرز زندگی رہی ہے جو بہت سے کمانے والوں کو اپنے ملک میں میسر نہیں۔ لیکن کرپٹو کروڑ پتیوں، ایشیا سے نقل مکانی کرنے والے بینکار اور کچھ مالدار روسیوں کی آمد کرایوں اور قیمتوں میں اضافہ کر رہی ہے یوں دیگر 3 ملین سے زائد شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
پرائیویٹ اسکول جہاں تارکین وطن کے بچوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے، کی فیسیں بڑھ گئی ہیں، اعلیٰ ترین برطانوی سپر مارکیٹ چین ویتروز میں اشیائے خورونوش کی ہفتہ وار قیمتیں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ رہی ہے اور بنیادی طور پر کاروں کے لیے بنائے گئے شہر میں رش کے اوقات میں اوبر کی سواری اب آپ کو نیویارک ٹیکسی کے ریٹ پر ملتی ہے۔
ریئل اسٹیٹ ایڈوائزر سی بی آر ای گروپ انکارپوریٹڈ کے مطابق، امارات میں ایک ولا، جو ایک خاندان کے لیے کافی ہے، کا اوسط سالانہ کرایہ فروری سے لے کر سال میں 26 فیصد بڑھ کر 295,436 درہم ( ڈالر 80,436) تک پہنچ گیا۔ اپارٹمنٹ کا اوسط کرایہ 28 فیصد بڑھ کر تقریباً 100,000 درہم ہوچکا ہے۔