عبدالکریم ڈھیڈی کو وزیر خزانہ بنایا جائے

0
70

تحریر: اجمل ملک ایڈیٹر نوشتئہ دیوار

عبدالحفیظ شیخ کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا بندہ ہے یہ شخص ہماری معیشت سے کتنا لاعلم ہے۔ اس کی ایک ہی مثال کافی ہے جب ملک میں ٹماٹر کم از کم ڈیڑھ سو روپے کلو تھا اور پورے ملک میں شور مچا ہوا تھا لیکن موصوف اتنے لاعلم تھے کہ کہا “ٹماٹر 17 روپے کلو بک رہا ہے جہاں سے چاہو لے لو “۔

ہم حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ اس لیئے بناتے ہیں تاکہ عالمی اداروں سے سود پر رقم لینے میں آسانی ہو اگر اگلے مذید چند سال ہم نے اسی طرح سود پر رقم لے کر ملک چلایا تو کیسی خوفناک صورتحال پیدا ہوگی اسے ہر خاص و عام  بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مجموعی طور پر جتنا قرض ہم نے لیا ہے اس سے تقریبا تین گنا زیادہ ہم اب تک ادا کر چکے ہیں۔ لیکن سودی قرضہ ہمارے سر پر کھڑا ہے اور اس کی ادائیگی کیلئے ہم آئی ایم ایف کی ہدایت پر اپنے ملک میں مہنگائی کرنے پر مجبور ہیں۔

 لہذا ہمیں اس سودی چکر سے نکلنا ہوگا اور اس کیلئے ہمیں اپنے ملک کے معاشی ماہرین کی طرف رجوع کرنا ہوگا  یہاں عارف حبیب بھی ہے جہانگیر صدیقی بھی ہے میاں منشاء وغیرہ بھی ہیں ان لوگوں میں یقینا کاروباری سوجھ بوجھ ہے اور اپنے لئے مال بنانے کا فن جانتے ہیں۔ لیکن عبدالکریم ڈھیڈھی میں کاروباری سوجھ بوجھ ان سے زیادہ ہونے کے علاوہ اس کی گفتگو میں حب الوطنی نظر آتی ہے وہ ہمیشہ پر امید دکھائی دیتا ہے۔ اس کی گفتگو میں قیصر بنگالی والی مایوسی دکھائی نہیں دیتی۔ لفافہ صحاففت کے اس دور میں کسی کی تعریف کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حالانکہ ڈھیڈی مجھے جانتا بھی نہیں ہے لیکن وہ ایک معروف شخص ہے اور میں جانتا ہوں کہ ہماری معیشت کے ہر زاویے پر اس کی انتہائی گہری نظر ہے۔ لہذا ہمیں اپنی معیشت کو درست کرنے کیلئے دیسی ٹیکنوکریٹ اور ماہر معیشت حضرات کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ 

ہماری معلومات کے مطابق اسوقت بھی ہمارے  بہت سارے محب وطن معاشی ماہرین  ملکی معیشت کی بہتری کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاھئے اور حقیقت یہ ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری لانا کوئی اتنی بڑی سائنس نہیں ہے۔ ہماری تقریبا %70  آبادی زراعت سے منسلک ہے اور ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لہذا ہم اسلام کا ایک واضع حکم زندہ کر کے ملک کی ایک بڑی آبادی کا معاشی مسلئہ حل کر سکتے ہیں۔ جس کے مطابق کوئی بھی وڈیرا یا جاگیر دار صرف اتنی زمین اپنے پاس رکھ سکتا ہے جو وہ خود اور اس کا خاندان کاشت کر سکتا ہے۔ بقیہ زمین اسے دوسروں کو مفت دینی ہوگی یہ حکم احادیث سے ثابت ہے۔ امام ابو حنیفہ کا بھی یہی مسلک ہے امام شافعی بھی یہی کہتے ہیں اور امام مالک کا بھی اس سے اتفاق ہے۔ صرف اس ایک قانون سے ملک میں جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی ختم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ جن لوگوں نے ملک کا مال لوٹ کر بیرون ملک جمع کر رکھا ہے یا اسی ملک میں جائیدادیں بنا رکھی ہیں ان سے یہ مال واپس لیا جائے اور اس کا طریقہ بہت سادہ ہے۔

 یہاں برصغیر کے معروف قانون دان جناب”جسٹس کھڑک سنگھ” صاحب کا فارمولا استمعال کیا جائے اور جو وکیل ملک کا مال لوٹنے والوں کی وکالت کرے اس کی جائیداد بھی ضبط کر لی جائے۔ چاہے وہ بیرسٹر اعتزاز احسن ہو یا فروغ نسیم ہو صرف اس طرح کے دو تین جرات مندانہ اقدامات سے اس ملک کی معیشت ٹھیک ہو جائے گی۔ لیکن یہاں ہمیں ایک مسئلہ درپیش ہوگا کہ جب آپ اس طرح اپنے ملک میں اصلاح کی کوشش کرینگے تو”عالمی غنڈہ” امریکہ بہادر “جمہوریت اور انسانی حقوق” کے نام پر ان کی پشت پناہی کیلئے کھڑا ہو جائے گا۔ آپ کے خلاف اقدامات کی دھمکی دے گا اور  ملک سمیت پوری دنیا میں اس کے کارندے شور مچانے لگیں گے ان مفت خوروں کے خلاف ایکشن لینے کیلئے چائنا کی مثال کو سامنے رکھنا ہوگا کہ اس نے کس طرح ملک سے امریکن ایجنٹوں کا خاتمہ کیا۔ اس کے علاوہ امریکہ کو اس ملک اور اس خطے سے نکال کر ہم اپنے اوپر لگے اس داغ کو بھی دھو سکتے ہیں جو خطے کے ممالک ہم پر امریکہ نوازی کی وجہ سے لگاتے ہیں۔ کچھ طبقات کو اس تجویز پر یقینا حیرت ہوگی لیکن اگر ہم اپنے عوام کو غربت اور سودی شکنجے سے چھڑوانا چاہتے ہیں تو ایک نہ ایک دن ہمیں ایسے سخت فیصلے کرنے ہی پڑینگے۔ لہذا جتنا جلد ایسے فیصلے کر لئے جائیں اتنا ہی بہتر ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں