تحریر: مقبول خان
ہم گذشتہ دنوں اتوار کے روز سفیر ادب شہزاد سلطانی کے ساتھ جنت الفردوس کے مرکزی دروازے پر کھڑے تھے۔ ہماری دستک پر مرکزی دروازہ کھلتا ہے، اور ہمیں ایک ڈرائنگ روم میں لے جایا تا ہے، سیاہ قمیض اور شلوار میں ایک وجیہ اور پر وقار شخص، جس کے چہرے کے خدو خال نصف صدی کے تجربات اور مشاہدات سے مزین تھے، ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں اندر لے جاتا ہے۔ یہ جاوید فردوس ہیں، جو ملک کے ممتاز شاعر، ادیب اور نغمہ نگار شاعر صدیقی مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔ جس ڈرائنگ روم کے ایک صوفے پر ہم بیٹھتے ہیں، وہ جنت الفردوس عرش بریں پر نہیں، بلکہ گلستان جوہر کے بلاک 17میں واقع ایک رہائشگاہ ہے، جہاں مرحوم شاعر صدیقی نے اپنی زندگی کے آخری ماہ و سال گذارے تھے۔ جنت الفردوس کے اس ڈرائنگ روم میں عام روایات سے ہٹ کر مذہبی رنگ نظر آیا۔ ایک دیوار پر خانہ کعبہ کی بڑی تصویر خوشنما فریم میں آویزاں تھی۔ جبکہ ڈرائنگ روم کی سنٹرل ٹیبل پر مختلف رنگوں کی تسبیات سلیقے سے رکھی ہوئی تھیں، جو جنت الفردوس کے مکینوں کے مذہبی مزاج کی عکاسی کر رہی تھیں۔ ڈرائنگ روم کا یہ مذہبی ماحول دیکھ کر ہمارے ذہن میں سابقہ مشرقی پاکستان کی ایک فلم بھیا کی نعت کے مطلع کا مصرعہ گونجنے لگا، مدینے والے کو میرا سلام کہہ دینا، یہ عقیدت بھرا، سلام مرحوم شاعر صدیقی کا تحریر کردہ تھا، جسے معروف گلوکار احمد رشدی مرحوم کی آواز میں صدا بند کیا گیا تھا۔
گلستان جوہر کی اس جنت الفردوس میں آنے کا مقصد مرحوم شاعر صدیقی کے بارے میں تعزیتی ریفرنس کے انعقاد کے سلسلے میں جاوید فردوس سے مشاورت کرنا اور اور مرحوم کی ادبی خدمات کو تحریری خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ان سے اور مرحوم کے برادر نسبتی محمد اقبال خان سے ضروری معلومات سے آگاہی حاصل کرنا تھی۔ شاعر صدیقی کے حوالے سے ان دونوں حضرات سے ہونے والے مکالمے کو تحریر کرنے سے قبل ہم یہاں اختصار کے ساتھ شاعر صدیقی کے فن، شخصیت، اور ان کی ادبی خدمات کا جائزہ نذر قارئین کرتے ہیں۔
شاعر صدیقی کا اصل نام عبدالرزاق خان تھا۔ یکم فروری 1933 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ معروف ماہر تعلیم پروفیسر ہارون الرشید ”اخلاق و کردار“ کے عنوان سے ”دبستانِ مشرقی پاکستان“ میں لکھتے ہیں. ”شاعر صدیقی نے سخت جدوجہد کی زندگی گزاری۔ 1949ء میں کلکتہ یونیورسٹی سے میٹرک پاس کیا۔قیام پاکستان کے بعد 1950 میں کلکتہ سے ہجرت کرکے ڈھاکا آگئے۔ وہاں سرکاری ملازمت کرلی۔ تعلیمی سلسلہ اور ادبی مشاغل بھی جاری رہے، ڈھاکا یونیورسٹی سے انٹر، بی اے، ایم اے (اردو) کیا۔ افسانہ نگاری اور شاعری کے ساتھ ادبی محفلوں میں شرکت بھی ہوتی رہی۔ متعدد ادبی انجمنوں کے سرگرم کارکن اور عہدے دار بھی رہے۔
نغمہ و منظر نامہ نگاری جب مشرقی پاکستان میں اردو فلمیں بننے لگیں تو نغمہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے شاعر صدیقی کی ادبی مصروفیات بڑھ گئیں۔ اطلاعات کے مطابق شاعر صدیقی نے 1961 میں ریلیز ہونے والی فلم ہمسفر میں گانا لکھ کر اپنے فلمی کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ یہ فلم اگر چہ اس وقت کے مغربی پاکستان میں بنائی گئی تھی لیکن اس کی کچھ فلم بندی سابقہ مشرقی پاکستان میں بھی کی گئی تھی، مزید بر آں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے موسیقار مصلح الدین نے اس فلم کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مصلح الدین نے شاعر صدیقی سے اس فلم کے لئے ایک یا دو گانے لکھوائے تھے۔ انہیں 1964 میں ریلیز ہونے والی پہلی سینیما اسکوپ رنگین فلم سنگم کے مکالمے لکھنے کا موقعہ ملا۔ اس فلم میں ان کے دو نغمات بھی شامل ہیں۔ چند سال کے وقفے کے بعد شاعر صدیقی کو فلم پائل کے نغمات لکھنے کا موقعہ ملا، اس فلم کےلئے انہوں نے چھ گانے تحریر کئے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے فلم پونم کی رات، بھیا، پیاسا، کارواں، پھر ملیں گے ہم دونوں اور قلی، بیگانہ، مہر بان، منا اور بجلی سمیت دیگر فلمیں شامل ہیں۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بڑے کٹھن مراحل سے گذرتے ہوئے پاکستان پہنچے، اور ملازمت کے ساتھ پاکستان ٹیلی ویژن کے مختلف پروگراموں کے لئے منظر نگاری کی۔ جن میں بزم لیلیٰ، اور سنڈے کے سنڈے اور شیشے کا گھر قابل زکر ہیں۔ ان پروگراموں کے موسیقار کریم شہاب الدین تھے، جن کی شاعر صدیقی کے ساتھ مشرقی پاکستان سے ہی دوستی تھی، اور ان کی موسیقی میں شاعر صدیقی کے لکھے ہوئے مختلف فلموں کے نغمے صدا بند ہوئے تھے۔ شاعر صدیقی کے لکھے نغمے اور گیت پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے مشہور گلوکاروں اور گلوکاراوں کی آواز میں صدا بند کئے گئے ہیں، جن میں ملکہ ترنم نورجہاں، احمد رشدی، مسعود رانا، سلیم رضا، ناہید نیازی، بشیر احمد، شہناز بیگم، عالمگیر، رونا لیلیٰ، فردوسی بیگم، مالا، مجیب عالم، آئرن پروین، جمال اکبر، فاطمہ جعفری، ریحانہ یاسمین، راجن اور امینہ راجن ودیگر کے نام شامل ہیں۔ علاوہ ازیں چند نامکمل فلموں کے گانے بھی تحریر کئے تھے، ان ادھوری فلموں میںتان سین، اپنی منزل اپنی راہیں، اور ایک ہی راستہ قابل زکر ہیں۔
ان کی فلموں سے وابستگی کا عرصہ 15سال بتایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں آڈیو پاپ میوزک کا کیسٹ ریفلیکشن کے نام سے شالیمار ریکارنگ کمپنی پاکستان اور پھر میگھا ساونڈ انڈیا نے بمبئی سے ریلیز کیا تھا۔ شاعر صدیقی نے جن معروف موسیقاروں کے ساتھ مل کر فلم اور ٹیلی ویژن کے لئے نغمے تخلیق کئے، ان میں موسیقار کریم شہاب الدین، ناشاد، روبن گھوش، مصلح الدین، سبل داس، دیبو بھٹا چاریہ، علی حسین، بشیر احمد، خان عطا الرحمنٰ شامل ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ شاعر صدیقی نے پاکستان ٹیلی ویژن کراچی کے پہلے پاپ میوزک پروگرام سنڈے کے سنڈے میں سیریز کے لئے نغمات لکھ کر مشہور گلوکار عالمگیر کو شہرہ آفاق گیت البیلا راہی لکھ کر پردہ اسکرین پر متعارف کرایا۔
ادبی وصحافتی خدمات میں شاعر صدیقی کی ادبی حوالے سے شہرت کا تعلق اگرچہ ریڈیو، ٹی وی اور فلم سے ہے، اس کے باوجود ان کا کلام تسلسل سے ہندوستان اور پاکستان کے ادبی جرائد میں شائع ہوتا رہا ہے۔ سرکاری ملازمت بھی بغیر کسی تعطل کے جاری رہی۔ یہ امر باعث حیرت ہے کہ وہ اتنا سارا کام کیسے کرلیتے تھے۔ اتنی مصروفیتوں کے باوجود ان کی خوش مزاجی، خوش اخلاقی اور ملنساری ہمیشہ برقرار رہی۔ اس کے علاوہ دوسروں کی مدد کرنا اور ان کے کام آنا ان کی ایک اضافی مصروفیت تھی۔ انہوں نے صحافت کی ابتدا روزنامہ پاسبان، اور انگارہ ڈھاکہ سے بطور سب ایڈیٹر کی تھی۔ کم و بیش 5 سال ہفت روزہ چترالی کے ایڈیٹر انچارج رہے۔ وہ ماہنامہ شمع کراچی کے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے فرائض کئی برس تک انجام دیتے رہے۔ فری لانسر کے طور پر پر روزنامہ حریت اور ہفت روزہ پیمان میں بھی صحافتی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔
سقوطِ ڈھاکا کے بعد شاعر صاحب نے بہت تکلیفیں اٹھائیں۔ 1974ء میں نیپال ہوتے ہوئے مع اہل عیال کراچی پہنچے۔ یہاں بھی مصروف تگ و دو رہے۔ اسٹینو کی حیثیت سے واپڈا کی ملازمت جاری رہی۔ شعر و شاعری، نثر نگاری، ریڈیو اور ٹی وی کے لیے نغمہ نگاری اور صحافت کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ 1975 میں ماہنامہ ”شمع“ کراچی کے مدیر معاون مقرر ہوئے اور طویل عرصے تک یہ ذمے داری بھی نبھائی۔ واپڈا کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو پرائیویٹ ملازمت کرلی۔ ایسے منکسر المزاج، بااخلاق، مخلص، ہمدرد اور نیک کردار شاعر و ادیب بہت کم ملتے ہیں۔ ان کے مقبول کلام میں مدینے والے سے میرا سلام کہہ دینا، کہاں ہو تم چلے آﺅ محبت کا تقاضا ہے، ہم تم جہاں ملے تھے پھولوں کی رہ گزر میں شامل ہیں۔ شاعر صدیقی کی حسب ذیل کتب شائع ہوئیں۔ جن میں آنکھوں میں سمندر، پانی کا ملک پتھر کے لوگ (المیہ مشرق پاکستان کے پس منظر میں، بجھتے سورج نے کہا، جگر لخت لخت، سندر بن میں آگ اور کلیاتِ شاعر صدیقی شامل ہیں۔ شاعر صدیقی نے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑیں۔ اللہ ربّ العزت شاعر صدیقی کی مغفرت کرے۔ آمین۔
منتخب اشعار
دشت کو گھر بنا لیا ہم نے
ریت میں منہ چھپا لیا ہم نے
اپنی قسمت کی تیرگی کی قسم
دل کو سورج بنا لیا ہم نے
اب بھی انصاف غریبوں سے جدا ہے اے دوست
اب بھی مظلوم پہ ہر ظلم روا ہے اے دوست
آس دل میں نہیں آنکھوں میں کوئی پیاس نہیں
چند یادوں کے سوا کچھ بھی میرے پاس نہیں
اک جام ہو عطا مجھے ساقی بھر ہوا
آیا ہوںمیکدے میں سکوں ڈھونڈتا ہوا
پیدا نئی سحر کے آثار ہو گئے ہیں
جو لوگ سو رہے تھے بیدار ہو گئے ہیں
ہوش و خرد ابھی تک حیراں جس پہ شاعر
ہم بے خودی میں اکثر وہ کام کر گئے ہیں
مشہور نغمے
مدینے والے سے میرا سلام کہہ دینا (گلوکار احمد رشدی)
اپنے ہوئے پرائے پھر موت کیوں نہ آئے( نور جہاں)
رات رو پہلی چنچل تارے (طلعت محمود)
چھوڑ کے جانے والے ( آئرن پروین)
تم کو مبارک ہو یہ سماں ( مجیب عالم)
ارے تم بھی کچھ تو بولو (رونا لیلیٰ)
تم چاہے بولو نہ بولو میرے سجنا (مالا)
یہ پیار کی سوغات ہے (فردوسی بیگم)
جانے کیسے لوگ یہاں (شہناز بیگم)
کہاں ہو تم چلے آو محبت کا تقاضہ ہے (شہناز بیگم و دیگر)
وہیں زندگی کے حسیں خواب ٹوٹے (جما اکبر و دیگر)
شاعر صدیقی مر حوم نے ایک بیٹا جاوید فردوس اور دو بیٹیاں رباعی اور کنول یادگار چھوڑیں۔ اللہ ربّ العزت شاعر صدیقی کی مغفرت فرمائے اور درجات بلندکرے۔ اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فر مائے ۔آمین۔