شاعر آزاد اقبال کی نظموں کا پہلا مجموعہ دانائے راز

0
29

تبصرہ: مقبول خان

کتاب دانائے راز آزاد اقبال کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ یہ آزاد اقبال کا پہلا مجموعہ کلام ہے۔ زیر تبصرہ کتاب دانائے راز کے شاعر آزاد اقبال بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر اور فلسفی ڈاکٹر علامہ اقبال کے بڑے پوتے اور بیرسٹر آفتاب اقبال کے صاحبزادے ہیں۔ آزاد اقبال کی نظموں کا پہلا مجموعہ مجھے کے یوجے (دستوری) کے صدر حامد الرحمٰن کے توسط سے ملا تھا۔ اس کتاب کے مطالعہ ان کی شاعری کا جو اہم پہلو میرے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ آزاد اقبال ایک ایسے سخنور ہیں جن کے نزدیک شاعری عبادت ہے۔ وہ اپنے پہلو مجموعے میں نظموں کے شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ اور اس کتاب میں شامل جو نظمیں میری نظر سے گذری ہیں ،ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے اپنی فکر کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک رکھنے کی کوشش کی ہے، ان ہاں شاعرانہ فرسودگی اور روایتی انداز سخن نہیں ملتا ہے۔ اس لئے آزاد اقبال کی شاعری کوعام یا روایتی شاعری کہ کر نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں۔ ان کی شاعری درسی منظومہ، اخلاقی خبر نامہ اور اصلاحی بیانیہ ہے، جو اس وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنی فکر شعری سانچے میں ڈھالنے کے لئے سادہ اسلوب اختیار کیا ہے۔ اور اپنی فکر سادگی کے ساتھ قاری تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نازک خیالی ان کے اشعار کا حسن ہے۔ زیر نظر نظموں کے مجموعے میں شامل کلام کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کی نظموں میں علامہ اقبال کے اشعار کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہ اپنے اشعار کے ذریعہ عوام کوحق وباطل اور خیر و شر کے درمیان فرق کو سمجھانے کی کوشش کر تے ہیں۔ انہیں اپنا قبلہ درست کرنے کے ساتھ ان کی سماجی، مذہبی، معاشرتی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی نظموں میں معاشرتی، اخلاقی، اور روحانی سمیت دیگر موضوعات نہایت سادگی اور روانی کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں۔ اسی حوالے سے آزاد اقبال کو مثبت قدروں کا شاعر کہا جاسکتا ہے۔ آزاد اقبال کے اشعار میں دور حاضر کے معروضی حالات کے پس منظر میںہر نوع کے استحصال، جبر اور ظلم کی مخالفت نظر آتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ موجودہ نظام حیات سے سے غیر مطمین ہیں۔ وہ شخصی آزادی کے قائل ہیں، لیکن یہ آزادی غیر نہ ہو۔ وہ سماج میں تطہیر کے لئے علماء کے کردار کو اہم سمجھتے ہیں، تاہم ان کا موقف ہے کہ معاشرتی اور سماجی برائیوں کا تدارک محراب و منبر کی اولین ذمہ داری ہے۔ وہ علماء شاہ نوازی اور شاہ پرستی کے خلاف ہیں۔ سماج میں حق تلفیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرنا علماء کے وقار کے منافی سمجھتے ہیں، یہ حقیقت بھی ہے کہ علماء   کے منفی طرز عمل نے عوام کو جبہ دستار پر انگلی اٹھانے کا موقع دیا ہے۔ آزاد اقبال کی شاعری کی نظموں کو پڑھنے کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کی شاعری کا مقصد محض روایتی شاعری نہیں ہے۔ ان کی نظموں میں عوام کی اصلاح کا پہلو نمایاں ہے۔ اسے دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی نظموں میں عوام کو شر و خیر اور حق وباطل کا فرق سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور انہیں، ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کی کو شش کر رہے ہیں۔ یہاں ہم آزاد اقبال کا مختصر تعارف ان کی کتاب کے پیش لفظ سے اخذ کرتے ہیں۔

آزاد اقبال بیرسٹر آفتاب اقبال کے صاحبزادے اور اور شاعر مشرق علامہ اقبال کے سب سے بڑے پوتے ہیں۔ انہوں نے تاریخی شہر لاہور میں آنکھ کھولی، ابتدائی تعلیم کراچی گرامر اسکول اور اعلیٰ تعلیم انگلینڈ میں حاصل کی۔ یونیورسٹی آف لندن سے ایل بی آنرز کی ڈگری حاصل کی، اور لنکز ان سے بیرسٹر کی سند لی۔ 1975پاکستان آکر والد آفتاب اقبال کے ساتھ قانونی پریکٹس کی۔ انہیں کم عمری ہی سے شاعری اور موسیقی سے دلچسپی تھی۔ موسیقی کی ابتدائی تربیت بابا عنایت اللہ سے حاصل کی۔ انہوں نے مرزا غالب، اپنے دادا علامہ اقبال، فیض احمد فیض اور احمد فراز کے کلام کو موسیقی کے رنگ میں ڈھالا۔ دانائے روزگار ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ہے۔

سامیہ پبلیکیشنز کے تحت شائع ہونے والے نظموں کے مجموعے کا انتساب شاعر آزاد اقبال نے اپنے دادا علامہ اقبال اور اپنے والد بیرسٹر آفتاب اقبال کے نام معنون کیا ہے۔ 248 صفحات پر مشتمل نظموں کے اس مجموعے میں 90 سے زائد نظمیں شامل ہیں۔جن کے عنوانات نہ صرف دلچسپ بلکہ معنی خیز بھی ہیں۔ سان عنوانات میں قوت ایمان، ہائڈلبرگ کی یاد میں، سوال بندہ جواب خدا، فروغ اسلام، نوجوان مسلم، مکالمہ حیات و موت، مناجات راز حیات، دین فطرت، صلاح حق، فیشن، آمد جہاں، آمد جہاد، ماں کی یاد میں، اپنا وطن، دعائے شفا، بابا عنایت کی یاد میں، پاکستان ہمارا ہے، شیخ جی، طوطے کی فریاد، شیخ جی اور یاد ماضی قابل زکر ہیں۔ کتاب دانائے روزگار پر پروفیسر خیال آفاقی، الیاس کھکھر ایڈوکیٹ،اور راو تہذیب حسین تہذیب نے شاعر کی شخصیت اور اور ان کی شاعری کے مختلف پہلووں پر اظہار خیال کیا ہے۔ دانائے راز کا سرورق احمد چغتائی کے تخیل کا نتیجہ ہے، جو کتاب میں شامل نظموں سے مطابقت بھی رکھتا ہے۔ رنگوں کے انتخاب نے اسے مزید پر کشش بنا دیا ہے۔ کتاب کے نگراں کاشف علی ہاشمی ہیں۔ امید ہے کہ آزاد اقبال کی نظموں کا یہ مجموعہ ادب دوستوں کی توجہ کا مرکز بنے گا۔ اور اس کاوش کو ادبی حلقوں میں سراہا جائے گا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں