تحریر: ریاض بلوچ
پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ سوشل میڈیا پر شہباز شریف کی اتحادی حکومت کے خلاف طوفان برپا ہے، جس نے اپنے مختصر عرصے میں تیل گیس و بجلی کی قمتوں میں دوبار اضافہ کردیا ہے۔ دوسرے طرف وزیر خزانہ مفاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ ابھی بھی پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں سبسڈری دے رہے ہیں۔
وزیر خزانہ کی باتوں سے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ تیل، گس و بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائیگا۔ تیل کی قیمتیں بڑھاکر حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ آٹا، چینی، گهی اور دیگر اشیاءِ خوردونوش کی مد میں عوام کو سبسڈی دیگی لیکن جیسا کہ سب جانتے ہیں پاکستان کا کوئی ادارہ بدعنوانی سے پاک نہیں ہے، اداروں میں بیٹهی اشرافیہ اپنی دولت میں اضافہ کرنے کے لئے عوام کا خون نچوڑنا اپنا حق سمجهتی ہے۔ اس لئے حکومت کی جانب سے دی گئی یہ سبسڈی عوام تک پہنچنے سے قبل غائب ہوجائیگی۔ حکومت اگر سرکاری یوٹیلیٹی اسٹورز کو اشیاءِ خوردونوش میں کمی کرنے یا کم از کم اس میں مزید اضافہ کرنے سے منع کریگی تو بھی عوام اس سے مستفید نہیں ہوسکتی کیونکہ ایک تو سرکاری یوٹیلیٹی اسٹورز کی تعداد بہت کم ہے اور دوسرا اس کا سامان عوام کے بجائے دوکانداروں کو فروخت کیا جائیگا۔ ایسے کئی خبریں اس سے قبل بھی میڈیا میں آتی رہی ہیں۔ اس لئے خدشہ ہے اس بار بھی حکومت کی اس سبسڈری سے بھی عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ وہ اشیاءِ خوردونوش و دیگر ضروریات کی اشیاءَ مہنگی داموں خرید کرنے پر مجبور ہوگی۔
میڈیا رپورٹس اور معاشی ماہرین کے مطابق مہنگائی صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے، جس کی مختلف وجوہات میں سے ایک کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن ہے۔ معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن سے دنیا میں تیل اور گیس کی کھپت کم ہوگئی تهی جس کے باعث تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک نے تیل و گیس کے پیداوار کم کردی تهی لیکن دنیا کے مختلف ممالک نے آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن کا نفاذ ختم کردیا تو تیل اور گیس کی طلب میں ایک دم اضافہ ہوگیا اور اس طرح عالمی منڈی میں تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ موسمیاتی تبدیلیوں اور شدید گرمی کے باعث امریکہ و کینیڈا میں گندم کی پیداوار میں دس ملین ٹن کمی ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا پر راج کرنے والے سُپر پاور امریکہ اور ترقی یافتہ ملک کینیڈا بھی مہنگائی کی زد میں ہیں۔ معاشی ماہرین پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو تحریک انصاف اور عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے درمیان 6 ارب ڈالر کے معاہدے کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت آئی ایم ایف کی شرائط اور ملک کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنے میں ناکام ہوئی جس کے باعث معیشت عدم استحکام کا شکار ہوئی اور آئی ایم ایف نے رقم کے اقساط روک دیں۔
پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ ملک کسی دور میں معاشی طور مستحکم نظر نہیں آتا۔ ہر حکومت آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دیتی رہی ہے اور اپنے دور حکومت میں ملک کو مقروض کرتی رہی ہے۔ حالانکہ ہمارے پڑوس میں بهارت نے 1991ع میں اپنا سونا فروخت کرکے آئی ایم ایف سے جان چھڑائی تهی۔ لیکن ہمارے ہاں بلوچستان کے مقام سوئی اور بارکهان، سندھ سے ملنے والی گیس سے مقامی باشندوں کو تو مستفید نہیں کیا گیا لیکن ملکی معیشت بھی سنبهل نہیں سکی۔ گیس تو کیا بلوچستان سے سونا، سنگ مرمر اور دیگر معدنیات کو بهی بے دردی سے لوُٹا گیا، جس حکمران طبقات اور اشرافیہ نے اپنی تجوریاں تو بهر دیں لیکن ایک طرف اس دولت کے مالک اقوام معمولی امراض میں تڑپ تڑپ کر مرتے رہی اور ان کے لئے کوئی ڈسپینسری دوائی میسر نہیں ہوسکی تو دوسری طرف ملک کے دیگر حصوں میں بسنے والے عوام کو بهی مہنگائی اور غربت سے نجات حاصل نہ ہوئی۔
اس ملک کی پجھتر سالہ تاریخ میں کم و بیش 35 سال آمریت کا راج رہا۔ جس میں جنرل ضیاءَ الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں جہاد و دہشتگردی کے نام پر ڈالروں کی وافر مقدار بھی ملتی رہی، ان کے بدلے میں پاکستان اندورنی طور پر انتشار و خانہ جنگی کا شکار ہوا، ہزاروں شہریوں کی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اور امن و امان قائم کرنے کے لئے امریکا کے دیے گئے ڈالروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ رقم خرچ کرنا پڑی۔
نام نہاد جمہوری حکومتوں میں بھی چند ایک سال کے علاوہ کوئی حکومت عوام کو رلیف دینے اور ملک میں معاشی استحکام لانے میں ناکام رہی۔ آئی ایم ایف سے وقت بہ وقت لئے گئے قرضوں کی رقم سے اگر ملک کی زرعی شعبے میں اصلاحات کی جاتیں اور دیہاتی علاقوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کی جاتیں تو زرعی پیداوار میں اضافہ ہوتا اور لوگ شہروں کا رُخ نہ کرتے۔ جس سے ایک طرف بڑے شہر مسائل کا شکار نہ بنتے دوسری طرف توانائی اور خاص طور بجلی بچت کرنے میں آسانی ہوتی۔ دیہاتوں کی خوشحالی سے دودھ، گوشت اور پھل فروٹ کی پیداوار میں اضافہ ہوتا لیکن ایسی منصوبہ بندی کے لئے سر کھپانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اس لئے آج پاکستان ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے گندم درآمد کر رہا ہے۔
پچھتر سالہ تاریخ میں ہر سال مہنگائی، غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ آج بھی کئی ایسے بزرگ حیات ہیں جو اس ملک کی مکمل تاریخ کا چشم دید گواه ہیں۔ ان سے جب مہنگائی کی بات کی جائے تو وہ تقریبا ایک ہی جواب دیتے ہیں۔ مہنگائی جب بڑھتی ہے تو پھر کم نہیں ہوتی۔ مطلب انہوں نے اپنے تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کرلیا ہے کہ اس ملک میں مہنگائی کم ہونے کی اُمید کرنا خوش فہمی تو ہوسکتی ہے لیکن حقیقت نہیں۔ حکمرانوں کی تمام تر دعواؤں اور اعداد شمار کو ایک طرف رکھتے ہوئے عوام یہ کہتے ہیں ہم تو اپنے حصے کا کام ایمانداری و محنت سے کرتے آئے ہیں تو پھر ہر گذرتے سال ہماری زندگی کیوں اجیرن ہوتی ہے؟۔
مفتاح اسماعیل صاحب کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے شرائط پر تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے تو عوام کہتے ہیں سانس لینے اور جینے کے لئے روٹی کے دو نوالے کھانا ہمارے لئے ناگزیر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو دودھ، پھل و میواجات اور متوازن غذا نہ ہی سہی لیکن روٹی اور پانی میں ڈبویا ہوا بسکٹ تو کہلانا پڑتا ہے، اسی طرح بوڑهے ماں باپ کی دوائی لینا بھی ضروری ہے، جو بڑھتی ہوئی مہنگائی میں خرید کرنا مشکل سے مشکل بنتا جا رہا ہے۔ اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو مہنگائی کسی حد تک عالمی مسئلہ ہے اور اس سے پاکستان کا متاثر ہونا بھی حقیقت ہے لیکن کیا معاشی بحران صرف تیل و بجلی کی قیمتیں بڑھانے اور مہنگائی میں اضافہ کرنے سے ٹل سکتا ہے؟ چلیں یہ کام تو آپ نے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق کردیا لیکن کیا آئی ایم ایف سے متوقع رقم ملنے کے بعد ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ پائیگا؟ معاشی بحران کا خاتمہ ہوگا؟ اس کے لئے کچھ اور اقدام اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے؟۔
اس ملک کی تاریخ میں عوام تو قربانی کا بکرا بنتی رہی ہے، وہ تو چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے مہنگائی کی چکی میں پِسنے کو تیار ہے لیکن افسر شاہی کے اخراجات و مراعات میں بھی کمی کی جا سکتی ہے، تمام سرکاری دفاتر سے اے سی نکلوا کر اور دفتری اوقات کار میں کمی کرکے بھی بچت کی جاسکتی ہے۔ تمام سرکاری افسران، صدر، وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ، وزراہ و اسمبلی ممبران سے بڑی گاڑیاں چھین کر انہیں چھوٹی گاڑیوں میں بٹھانے کی زحمت کرتے ہوئے بھی مہنگے تیل کی کھپت کم کی جاسکتی ہے۔
اگر مشکل فیصلے کرنا اتنا ہی ضروری ہے تو دفاعی و جنگی ساز و سامان کی خریداری و مینٹینس میں بھی کفایت شعاری کی جا سکتی ہے۔
کیا معزز جج صاحبان عدلیہ کے اخراجات و اپنی مراعات میں کمی کرکے ملک کے لئے قربانی دینے کو تیار ہیں؟۔ کیا معاشی بحران سے نپٹنے کے لئے صنعتکار طبقہ بھی زیادہ ٹیکس دیکر ثواب دارین حاصل کرینگے؟۔ سیاستدان حضرات جو صبح و شام غریب کے غم میں ہلقان ہیں وہ اپنی جائداد سے کچھ حصہ دان کرتے ہوئے سخاوت کرنا قبول کرینگے؟۔
لیکن اگر ایسا کچھ نہیں ہوتا تو پھر ملکی معیشت صرف عوام کی کمر پر بوجھ ڈالنے سے اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکتی اور پھر یہ معاشی بحران و مشکل فیصلوں کی رٹ سراسر جھوٹ سمجھی جائیگی۔