کراچی (مدثر غفور) ایف آئی اے کراچی کے کمرشل بینک سرکل میں دو برس سے جاری انکوائری نمبر 2022 /74 جو کہ پاکستان تحریک انصاف کے مبینہ 24 بینک اکاؤنٹس جن میں غیر ممالک سے بھاری رقوم منتقل ہوئیں اس میں مزید پیش رفت سامنے آئی ہے۔ کراچی کے چار اکاؤنٹس کے دستخط کنندہ جن میں سابق گورنر سندھ اور پارٹی رہنما عمران اسماعیل بھی شامل ہیں انہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں فیڈریشن آف پاکستان کے خلاف آئینی درخواست دائر کر دی جس کی سنوائی گزشتہ روز ہوئی۔
اعلی عدالت کی ہدایت پر 2022 میں پاکستان تحریک انصاف کے 24 اکاؤنٹس میں غیر ممالک سے بھاری رقوم منتقل ہونے کی تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ ان اکاؤنٹس میں پارٹی نے 8 اکاؤنٹس کو اپنی ملکیت تسلیم کیا جبکہ 16 کو تسلیم نہیں کیا۔ اس حوالے سے اسلام اباد اور کراچی میں تحقیقات کا آغاز ہوا۔ کرچی میں تحقیقات کے حوالے سے کمرشل بینک سرکل میں ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے ممبران میں سرکل سربرا ڈپٹی ڈائریکٹر رابعہ قریشی، ٹرپل سی کے قائم مقام سربراہ عبدالرؤف شیخ، انسپیکٹر ثنا اللہ، سب انسپیکٹر راحت خان، سب انسپیکٹر سبین غوری اور اینٹی کرپشن سرکل کے سربراہ چوہدری اعجاز احمد تھے۔
کمیٹی کی طرف سے 5 اگست 2022 کو چار اکاؤنٹس کے سگنیٹریز عمران اسماعیل، محمد نجیب ہارون، ثمر علی خان اور محمد جاوید عمر کو کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے نوٹسز جاری کیے۔ مذکورہ افراد نے فیڈریشن آف پاکستان کو فریق بناتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کر دی۔ درخواست پر کاروائی گزشتہ روز ہوئی۔
ایف آئی اے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ تحقیقات جاری ہیں، نوٹسز جاری کیے تھے اور کمیٹی نے متفقہ طور پر یہ سفارشات کی تھیں کہ مذکورہ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ دلائل کے بعد معزز جج نے ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر کو ہدایت جاری کی کہ مذکورہ تحقیقات کا فیصلہ ایک ماہ کے اندر کریں اور عدالت کو آگاہ کریں۔
واضح رہے کہ کمیٹی کی سربراہ ڈپٹی ڈائریکٹر رابعہ قریشی کا تبادلہ کر دیا گیا اور بعد میں اس رپورٹ پر نئے سرکل سربراہ نے بھی دستخط کیے۔ کانفیڈینشل فائنل رپورٹ ڈائریکٹر سندھ زون ون کے ذریعے ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر ارسال کر دی گئی اس حوالے سے کمیٹی کے 7 ارکان میں سے چار افسران سے اس موضوع پر بات کی گئی مگر چاروں نے اس پر تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔ اس حوالے سے ایک درخواست کنندہ عمران اسماعیل کو متعدد بار واٹس ایپ کال پر اور نارمل کال پر رابطے کی کوشش کی گئی، ان کو میسج بھی کیا گیا لیکن انہوں نے فون اٹھانے یا میسج کا جواب دینے سے اجتناب کیا۔