کینیڈا۔۔ انتخابات تھے یا مذاق۔ امریکہ کینیڈا کے روایتی تعلقات ختم؟

0
14

تحریر: بشیر سدوزئی (ٹورانٹو)

7مارچ 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو کے عام انتخابات سے 2024ء کے انتخابات تک پاکستان میں کتنے ہی انتخابات اور اس کے نتیجے میں بنتی ٹوٹتی حکومتیں دیکھیں لیکن کینیڈا میں 28 اپریل 2025ء کو ہونے والے انتخابات کو دیکھ کر لگتا ہے، اگر ہماری جمہوریت اور انتخابات صحیح ہیں تو کینیڈا میں یہ انتخاب نہیں مذاق ہوا ہے۔ ہم تو ایک ہفتہ پہلے ہی کینیڈا پہنچ چکے تھے، اسی انتظار میں رہے کہ کوئی بڑا جلسہ ہو گا، کوئی جلوس نکلے گا کوئی آخری ریلی نکلے گی، گانہ بجانہ، ڈھول دھمالچہ ہو گا، کوئی بینروں کی بھرمار اور اوپر نیچے لگانے پر جھگڑے، پوسٹروں سے دیواریں برباد لیکن کچھ بھی نہیں نظر آیا۔

مجھے تشویش ہوئی انتخابات ہو بھی رہے ہیں کہ تین ماہ کا اعلان پر 9 سال انتظار کرنا ہو گا۔ میدان ہی خالی ہے تو پھر اس کو دنگل کون مانے گا۔ بتایا گیا یہاں انتخابات بیلٹ کے ذریعہ ہوتے ہیں سڑکوں چوراہوں اور میدانوں میں بلٹ کے ذریعہ دنگل نہیں ہوتے۔ اس تسلی سے میری تشفی نہیں ہوئی کہ میں تو انتخابات کے شور کا عادی تھا اور اسے آج تک دنگل ہی سمجھتا رہا، جو میرے ملک کی جمہوریت کا بنیادی جز ہے۔ یہاں نہ کوئی ایک دوسرے کو گالیاں دے رہا ہے نہ فائرنگ نہ کسی کے زخمی اور شہید ہونے کی کوئی خبر، ایک دن اچانک سنا کہ وزیر اعظم مارک کارنی جو لبرل پارٹی کے قائد اور آئندہ کینیڈا کے وزیراعظم کے امیدوار ہیں، ہمارے علاقے میں آ رہے ہیں، کارکنوں سے خطاب کریں گے۔ معلوم نہیں موصوف کب آئے اور کب گئے، بعد میں معلوم ہوا کسی ہال میں 5، 7 سو لوگوں سے بات کی اور چپکے سے چلے گئے۔ عام شہریوں کو نہ خبر ہوئی نہ سڑکیں بند نہ ہٹو بچو، نہ سارن نہ ہوٹرز کا شور و غوغا۔ ایسے انتخابات پر شک اور تشویش جائز ہی ہے نا؟۔

انتخابات کے دو دن قبل صبح گھر سے باہر نکلے تو ہرے بھرے گھاس کے لائن میں کچھ لوگوں نے اپنے گھروں کے سامنے مختلف رنگوں کے کتبے ٹھوک رکھے ہیں جن پر امیدوار کا نام لکھا ہوا ہے۔ معلوم ہوا یہی انتخابی مہم کی انتہا ہے جس گھر کے سامنے جس رنگ کا کتبہ ہے وہ اس پارٹی کے امیدوار کی حمایت کر رہا ہے۔ اور دوسروں کو بھی دعوت دے رہا ہے کہ اس کے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دے۔ میں نے سوچا اس طرح دعوت دینے سے کون مانے گا۔ کچھ لٹریچر ہو، کچھ تصویریں ہوں اس کے ساتھ الیکشن آفیس کھولا ہوتا وہاں چائے کھانے چل رہے ہوتے تو انتخابات کا کچھ مزا بھی آتا کچھ ماحول بنتا، لوگ زندہ باد، مردہ باد کہہ رہے ہوتے۔ لیکن یہاں تو بس یوں ہی وقت گزر گیا۔ احمر میاں سے پوچھا الیکشن مہم نہیں چل رہی تو لوگوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ کس پارٹی کے کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔ بتایا سوشل میڈیا پر سب چل رہا ہے سب کو معلوم ہے کس کو ووٹ دینا ہے کس جماعت کی کیا پالیسی ہے۔

کنزرویٹو پارٹی کا اس مرتبہ نمبر تھا لیکن لگتا ہے دوڑ میں پیچھے رہ گئی۔ وجہ پوچھی تو بتایا مارک کارنی نے 5 لاکھ گھر بنانے اور بے روزگاری پر قابو پانے کا وعدہ کیا، ٹرمپ کے ساتھ برابری اور معاشی پالیسیوں کی نوید سنائی ہے لوگوں کو امید ہے کہ معیشت دان ہے، ٹریڈو کی غلطیوں کی اصلاح کرے گا۔ کنزرویٹو پارٹی کے قائد نے فلسطینیوں کی مخالفت اور اسرائیل کے حق میں بیان دے کر مقبولیت میں اچانک کمی اور مارک کارنی نے ٹرمپ کو جواب دے کر لبرل کی مقبولیت میں اضافہ کر دیا۔ احمر میاں نے یہ بھی بتا دیا کہ لوگوں کو معلوم ہے کہ کس کا ووٹ کہاں ہے، پولنگ اسٹیشن کہاں ہے کون سی بک اور کس صفحہ پر ووٹر کا نام ہے، کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ شناختی کارڈ ہی کافی ہے لیکن حکومت ایک کارڈ بھی جاری کرے گی۔ ایک دن قبل یعنی 27 اپریل کی شام تک ہر ووٹر کے دروازے پر وہ کارڈ بھی پہنچ گیا جس میں تمام تفصیلات موجود تھیں۔

رقبہ کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے اور جی8 کے ممبر ملک کی حکومت سازی کے لیے انتخابی مہم مکمل ہوئی اور اب چناو کا مرحلہ شروع ہوا۔ ہم نے تو پورا تہیہ کر رکھا تھا کہ انتخابات کے روز گھوم پھر کر دو چار پولنگ اسٹیشن کا جائزہ لیں گے کہ کیا طریقہ کار ہے، 45 کو 47 میں بدل دینا ان کو بھی آ گیا کہ نہیں۔ لیکن ڈر بھی تھا کہ پولنگ اسٹیشن، پولیس، پیرا ملٹری فورس اور ملٹری کے حصار میں ہو گا، ایک سیاح کو فوج اور پولیس کیوں کر پولنگ اسٹیشن تک جانے دے گی۔ ہمت کر کے صاحبزادے احمر بشیر اور بہو کے ساتھ میں بھی نکل پڑا جو ووٹ دینے جا رہے تھے۔ ایک عمارت کی پارکنگ میں گاڑی روکی گئی، دریافت کیا، یہاں کیا ہے بتایا گیا یہ چرچ کی عماورت ہے جہاں پولنگ اسٹیشن قائم کیا گیا ہے۔ لو یہ بھی عجب عبادت گاہ ہے، ہمارے ہاں ایک مسلک کی عبادت گاہ میں دوسرے مسلک کو نماز کی اجازت نہیں، یہاں چرچ میں سارے مذاہب کے ماننے والے ووٹ کاسٹ کریں گے۔ گاڑی سے اتر کر اِدھر اُدھر دیکھا نہ کوئی کیمپ لگے ہوئے نہ رش نہ پارٹی کارکنوں کے درمیان کھینچا تانی، نہ کشن کش، نہ بحث مباحثہ، اپنے انتخابات ہوتے تو،
“اِدھر سے تقاضا اُدھر سے تغافل
عجب کھینچا تانی میں پیغام بر ہے”۔
کے مصداق پولیس کسی کو گرفتار کر رہی ہوتی، رینجرز دوسرے کو اور فوجی جوان کسی جگہ چاک و چوبند کھڑا ہوتا۔ دوسرے دن بدترین دھاندلی کی شکایات سامنے آتی۔ یہاں نہ پولیس نہ، رینجرز، نہ فوج کی نگرانی، نہ کوئی جج بیٹھا ہوا ہے۔ معلوم کیا اتنی کھلی فضاء میں انتخابات کیسے شفاف ہو سکتے ہیں۔ ان کی نگرانی کون کر رہا ہے۔ کہا گیا اسی لیے تو شفاف ہو رہے ہیں کہ یہاں کوئی نگران نہیں۔ دروازے پر صرف ایک فرد جو حکومت کی جانب سے جاری کردہ کارڈ یا، شناختی کارڈ دیکھ کر ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن کے اندر چھوڑ رہا تھا۔ جب کہ دروازے کے اندر دو افراد اور ایک فرد ٹیبل پر لائپ ٹاپ رکھے بیٹھا تھا۔ یہ ایک بڑا سا حال تھا جہاں صوفے کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ اس کے آگئیں دوسرا حال تھا جہاں پولنگ جاری تھی۔ جتنے افراد اندر سے ووٹ دے کر باہر نکلیں گے اتنی تعداد میں ہی اندر داخل ہوں گے۔ میرے بارے میں پوچھا گیا یہ صاحب کون ہیں، میں نے اپنا تعارف کرایہ کے پاکستان سے آیا ہوں۔ میرا دورہ کینیڈا تو ذاتی اور تفریح ہے۔ میں تجزیہ گار ہوں اور کینیڈا کے انتخابات کو دیکھنے چاہتا ہوں۔ گیٹ پر ہی بتا دیا گیا کہ بطور تجزیہ گار آپ کی آمد کی ہمارے پاس کوئی اطلاع نہیں، اس کے باوجود ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں، پورے پولنگ اسٹیشن کے معائنے کی اجازت تو دیتے ہیں لیکن تصور بنانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہم نے شکریہ ادا کیا اور پولنگ اسٹیشن کے پورے نظام کو دیکھا۔ اس حال میں کافی دیر تک کھڑا رہا جہاں پولنگ ہو رہی تھی۔ نہ کوئی افراتفری نہ رش اور نہ ایجنٹوں کی بھر مار، ایک فرد ووٹر کارڈ دیکھاتا، کمپیوٹر میں تصدیق ہوتی، اہلکار بیلٹ پیپر جاری کرتا ہے۔ ووٹر بیلٹ پیپر لے کر پیچھے چلا جاتا ہے کراس کا نشان لگا کر بکس میں ڈال دیتا۔ انتخابی مراحل مکمل ہوا۔

پولنگ کا وقت صبح 9 تا رات 9 بجے تک مقرر تھا۔ چار کروڑ کی آبادی میں سے 28525638 رجسٹرڈ ووٹ پر مشتمل الیکٹرول کالج نے کینیڈا کی قسمت کا فیصلہ اور آئندہ پانچ برسوں کے لیے کینیڈا کے لیے حکمرانوں کا چناو کیا۔ جن میں سے 75485 ووٹرز 28 اپریل سے قبل ہی آون لائن ووٹ کاسٹ کر چکے تھے۔ کل %7۔ 68 فی صد ووٹ کاسٹ ہوئے۔ دس بجے نتائج آنا شروع ہو گئے تھے۔ 12 بجے صورت حال واضح ہو چکی تھی۔ کنزرویٹو پارٹی کے قائد نے شکست تسلیم کر لی۔ حالاں کہ کنزرویٹو پارٹی حکومت بنانے کے لیے 28 نشتوں کی ضرورت تھے، چھوٹی پارٹیوں کو س ملا کر حکومت بنائی جا سکتی تھی لیکن اس نے کسی توڑ جوڑ کے بغیر شکست تسلیم کی اور لبرل پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔

لبرل پارٹی تیسری مرتبہ حکومت میں آ رہی ہے، لیکن اس مرتبہ سیاست دان جسٹن ٹریڈو نہیں معیشت دان مارک کارنی کینیڈا کے حکمران ہوں گے۔ انتخابات میں کل 18 جماعتوں نے حصہ لیا لیکن کانٹے دار مقابلہ لبرل اور کنزرویٹو پارٹی کے درمیان ہوا۔ لبرل نے کل 7۔43 فیصد ووٹوں کے ساتھ 169 نشتیں حاصل کیں جب کہ کنزرویٹو پارٹی 3۔41 فیصد ووٹوں کے ساتھ 144 نشتیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ لبرل کو حکومت بنانے کے لیے مزید تین نشتیں کی ضرورت ہوگی۔ کیوبک پارٹی 22 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی جب کہ نیو ڈیموکریٹک پارٹی صرف 7 نشتیں حاصل کر سکی۔ پچھلے پارلیمنٹ میں اس کی 24 نشتیں تھیں۔ گرین پارٹی کو ایک نشست ملی۔ 13 پارٹیاں ایک نشست بھی نہیں جیت سکی جن میں سے ایک کی سربراہی پاکستانی نژاد نوجوان کر رہا تھا۔ 50 سے زائد پاکستانی تارکین وطن بھی مختلف سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر قسمت آزمائی کر رہے تھے۔ 15 مسلمان کامیاب ہوئے ہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان میں سے پاکستانی نژاد کتنے ہیں۔

کامیابی کے بعد نومنتخب وزیراعظم مارک کارنی نے کہا کہ امریکہ کا قائم کردہ آزاد عالمی تجارتی نظام ختم ہو گیا جس پر دوسری جنگ عظیم کے بعد کینیڈا انحصار کرتا رہا۔ یہ المیہ ہے تاہم نئی حقیقت بھی یہی ہے۔ ہم نے امریکہ کی خیانت کے دکھ کو برداشت کر لیا لیکن ہمیں کبھی اس سبق کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ہمیں اپنا خیال رکھنا چاہیے اور سب سے اہم بات کہ ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہیے۔ سیاسی اور سفارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کینیڈا کے نومنتخب وزیر اعظم، امریکہ کے ساتھ اپنے ملک کی نئی سیاسی و سفارتی سرحدیں بنا رہے ہیں تب ہی انہوں نے کہا کہ اب دونوں ممالک کے درمیان روایتی تعلقات ختم ہو چکے ہیں۔

واضح رہے کہ جنوری میں ڈونلڈ ٹرامپ کی جانب سے کینیڈین مصنوعات پر ٹیرف میں اضافہ اور اس خواہش کے اظہار کا کہ وہ کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ کینیڈین عوام نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے لبرل پارٹی نے اس وقت جسٹن ٹریڈو کو ہٹا کر مارک کارنی کو قائد بنایا جنہوں نے آتے ہی اس کا نوٹس لیا۔ وکٹری سپیچ میں مارک کارنی کے الفاظ کینیڈین عوام کی خواہشات اور ترجیحات کی عکاسی کرتے ہیں۔

کینیڈین ووٹرز نے حالیہ انتخابات کو مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے سے زیادہ امریکہ اور “ڈونلڈ ٹرامپ” کے ساتھ اپنے تعلقات کو ریفرنڈم کے طور پر دیکھا ہے۔ کینیڈا عوام کے اس موڑ کو دیکھتے ہوئے ٹرمپ نے فورا یو ٹرن لیا اور ٹیلی فون کر کے مارک کارنی کو کامیابی کی مبارک باد دی۔ کارنی کے دفتر سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ۔ “دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کینیڈا اور امریکا. دو خود مختار اور آزاد ریاستیں۔ باہمی مفادات کے لیے تعاون جاری رکھیں گی۔ اس مقصد کے لیے دونوں سربراہان جلد بالمشافہ ملاقات بھی کریں گے”۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں