کراچی: (رپورٹ: ماجد خان) سندھ میں 2022 میں تقریبا 700 سے زائد ملی میٹر بارش کے بعد جو تباہ کاریاں ہوئیں، ان میں ہزاروں گھر، روڈ تباہ ہوئے اور کئی لاکھ افراد بے گھر ہوئے، تباہ کارویوں کے پیش نظر سندھ حکومت نے ورلڈ بینک کے تعاون سے اندرون سندھ میں اقدامات شروع کر دیے، ان اقدامات کو دیکھنے کے لیے صحافیوں کے ایک وفد نے ان جگہوں کا دورہ کیا، گرین میڈیا انیشیٹیو سے تعلق رکھنے والی شبینہ فراز اور سعدیہ عبید نے ایس ایف ای آر پی (سندھ فلڈ ایمرجنسی ریہیبلیٹیشن پروجیکٹ- پی اینڈ ڈی ڈی کمپوننٹ گورنمنٹ آف سندھ) کی کوارڈینیٹر ثناء سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ صحافیوں کا وفد کراچی سے اندرون سندھ کا دورہ کرنا چاہتا ہے، جہاں سندھ حکومت ورلڈ بینک کے تعاون سے وہاں کے رہنے والوں کے لیے پینے کا صاف پانی، فلڈ ریزلنس روڈ، حادثات کی صورت میں 1122 اور سیٹلائٹ اسٹیشن جیسے پروجیکٹ پر کام کر رہی ہے، جس پر (ایس ایف ای آر پی) اور (جی ایم آئی) نے۔کراچی پریس کلب سے ایک کوسٹر صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ جن میں سرکاری ٹی وی اور نجی ٹی وی چینلز کے رپورٹرز، کیمرا مین کو لے کر کوٹری کے لیے روانہ ہوئی، سفر کے دوران ایس ایف ای آر پی کوآرڈینیٹر اور صحافیوں نے اپنا اپنا تعارف کروایا اور پھر سفر کوٹری ضلع جامشورو کی جانب شروع ہوا، دو گھنٹے کی مسافت کے بعد صحافیوں کا وفد کوٹری کے گاؤں کارو کہو ٹالوکا پہنچا، جہاں (ایس ایف ای آر پی) پروجیکٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد اسلم لغاری نے صحافیوں سے ملاقات کی اور اپنے ٹیکنیکل اسٹاف کے ساتھ بریفنگ دی جن میں انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے ریہیبلیٹیشن آف ڈیمج انفراسٹرکچر آف واٹر سپلائی اینڈ رینج اسکیم کے تحت جون 2024 میں ڈھائی ہزار گز کی اس جگہ پر مقامی لوگوں کے لیے پینے اور استعمال کے پانی کا پروجیکٹ شروع کیا گیا جو کہ 18 ڈائے بور اور 80 سے 120 فٹ گہرائی سے پانی نکال کر دو ٹینک میں جمع کیا جا رہا ہے، دونوں ٹینک 14 فٹ گہرے اور 30 فٹ لمبے ہیں، بجلی کے لیے 21 کے وی واٹ سولر سسٹم لگائے گئے ہیں جو کہ صبح 7 بجے سے دوپہر 3 بجے تک زمین سے پانی نکال کر ٹینک میں جمع کرتا ہے اور پھر منرل کرنے کے بعد زیر زمین پائپوں کے ذریعے مقامی لوگوں تک روزانہ کی بنیاد پر پہنچا دیا جاتا ہے۔
پروجیکٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کا مزید کہنا تھا کہ یہ پروجیکٹ جون 2025 سے قبل مکمل کرلیا جاۓ گا، اس پروجیکٹ سے تقریبا ڈھائی سو خاندان اور لگ بھگ 3 ہزار افراد مستفید ہونگے اور اسی طرح کے کئی پروجیکٹ سندھ کے مختلف شہروں اور گاؤں جن میں بدین، عمر کوٹ، شہید بےنظیر آباد، میر پور خاص، سانگڑ، جیکب آباد، کمبر شہداد کوٹ، دادو، جام شورو، نوشہرو فیروز، خیرپور 1، خیرپور 2 جیسی جگہوں پر بھی ریہیبلیٹیشن آف ڈیمج انفراسٹرکچر آف واٹر سپلائی اینڈ ڈرینج اسکیم کے تحت کام جاری ہے۔
اس حوالے سے نمائندہ نے سندھ کوٹری کارو کہو کے مقامی لوگوں سے ملاقات کی جنہوں نے بتایا کہ 2022 میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ہم یہاں سے چلے گئے تھے اور اب دوبارہ خاندان کے ساتھ واپس آگئے ہیں۔ اب ہمیں یہاں پر پینے اور استعمال کے لیے پانی میسر ہے، اسکول کے حوالے سے سوال کرنے پر مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہاں اسکول تو موجود ہے پر اس میں استاد موجود نہیں، جس بنا پر بچے اسکول نہیں جاتے۔
صحافیوں کے وفد کی رپورٹنگ اور کوریج مکمل ہونے کے بعد ایس ایف ای آر پی کے ڈپٹی پروجیکٹ ڈائریکٹر اور کوآرڈینیٹر صحافیوں کے وفد کے ہمراہ حیدرآباد 1122 کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر کی جانب روانہ ہوئے، حیدرآباد میں نیاز انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کے قریب واقع 1122 کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر پہنچتے ہی 1122 کے رضاکاروں نے پریڈ اور قومی ترانے سے صحافیوں کا استقبال کیا، پریڈ کے بعد حیدرآباد 1122 کے ایمرجنسی آفیسر روشن علی میہسر نے بتایا کہ حیدرآباد 1122 کا قیام سندھ میں 2022 کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد عمل میں آیا جو کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے ایس ایف ای آر پی کا حصہ ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حیدرآباد 1122 ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر میں 80 کے قریب اسٹاف موجود ہے جو کہ صبح اور دوپہر میں تیس، 30 رضا کار اور رات میں 20 رضاکار اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، ہائی وے قریب ہونے کی وجہ سے ایکسیڈنٹ کا ریشو زیادہ ہے اور اسی طرح حیدرآباد میں نہریں اور دریاۓ سندھ قریب ہونے کے باعث ڈوبنے کا ریشو بھی زیادہ ہے، انہوں نے بتایا کہ ایسی صورت میں 1122 آٹھ سے دس منٹ میں متاثرہ جگہ اور شخص کے پاس پہنچ جاتی ہے، ہمارے پاس 4 بوٹ، 20 غوطہ خور، 3 ایمبولنس، 4 فائر ٹینڈرز، 1 کرین، 1 ٹاؤ ٹرک موجود ہے۔
ایمرجنسی آفیسر کا مزید کہنا تھا کہ سردیوں میں آگ کے اور گرمیوں میں ڈوبنے کے واقعات بڑھ جاتے ہیں، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر 1122 کی کوریج کے بعد صحافیوں کو حیدرآباد کے نجی ہوٹل میں لنچ پر لے جایا گیا، لنچ کے بعد صحافیوں کا وفد ایس ایف ای آر پی کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور کوآرڈینیٹر کے ہمراہ میر پور خاص کی جانب روانہ ہوئے، میرپور خاص کے گاؤں جھنڈو کہسو پہنچتے ہی وہاں کے مقامی لوگوں نے صحافیوں کا استقبال کیا، وہاں موجود ایس ٹی او وحید منگی نے صحافیوں کو بریفنگ دی اور بتایا کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے ایس ایف ای آر پی سندھ میں 143 فلڈ ریزیلنس روڈ بنانے پر کام کر رہا ہے جو کہ تقریبا 866 کلومیٹر بنتا ہے اور یہ روڈ اپنے آس پاس کی جگہوں سے ایک سے ڈیڑھ میٹر اوپر ہوگا۔ اس سے مستقبل میں تقریبا 21 لاکھ لوگ مستفید ہوں گے اور کبھی 2022 کی طرح سیلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے، تو یہ مقامی لوگ ان روڈوں پر رہائش بھی اختیار کر سکیں گے، ایس ٹی او وحید منگی نے صحافیوں کو ٹنڈو حیدر سے ٹنڈو قیصر تک جانے والے روڈ کے حوالے سے بھی بریفنگ دی اور بتایا کہ 8 سے 10 کلومیٹر کا یہ روڈ جس کے درمیان سے ڈیڑھ کلومیٹر کا روڈ بھی نکلتا ہے آپس میں میرپور خاص کے کئی چھوٹے، بڑے گاؤں سے لنک کرتا ہے، یہ روڈ بننے کے بعد اس سے 80 سے 90 ہزار افراد مستفید ہوں گے، انہوں نے مزید بتایا کہ روڈ سیفٹی کے حوالے سے ہم نے روڈوں کے دونوں اطراف پر لال کلر کے جھنڈے لگا دیے ہیں، جس پر نمائندہ نے سوال پوچھا کہ ان روڈوں پر لائٹ کا انتظام کیوں نہیں ہے جس پر جواب میں ایس ٹی او نے بتایا کہ یہاں روڈوں پر لائٹ کا نظام کرنا بہت مہنگا پڑ جائے گا، چاہے وہ سولر سسٹم ہی کیوں نہ لگایا جائے، اس لیے یہ ممکن نہیں، اس حوالے سے پروجیکٹ کوآرڈینیٹر غلام شبیر ملا سے بھی بات کی گئی انہوں نے بتایا کہ یہ پروجیکٹ تقریبا 100 ملین ڈالر کا ہے، جس میں ورلڈ بینک کی جانب سے مزید اضافہ بھی کیا گیا ہے، صحافیوں کے وفد نے وہاں کے مقامی لوگوں سے بھی بات چیت کی، اس کے بعد ایس ایف ای آر پی ڈپٹی ڈائریکٹر محمد اسلم لغاری نے خواتین صحافیوں کو شال اور مرد صحافیوں کو اجرک پہنا کر سندھ کی ثقافت کا تحفہ دیا اور اس کے بعد صحافیوں کے وفد کو ہائی وے M9 روڈ پر واقع ہے سیٹلائٹ اسٹیشن 1122 کا دورہ بھی کرنا تھا، مگر دیر ہونے کے باعث وہاں کا دورہ ملتوی کرنا پڑا۔
ایس ایف ای آر پی ڈپٹی ڈائریکٹر نے بتایا ہے کہ سیٹلائٹ اسٹیشن 1122 کا مقصد ہائی وے پر ایکسیڈنٹ کی صورت میں فوری رسپانس دے گا اور مریضوں کو فرسٹ ایڈ دینے کے ساتھ ساتھ جلد ہسپتال پہنچائے گا۔ سیٹلائٹ اسٹیشن کے رضاکار جلد پاسنگ آؤٹ کے بعد اپنے اپنے اسٹیشنز کو جوائن کریں گے، انہوں نے مزید بتایا کہ 14 سیٹلائٹ اسٹیشن این-55، این-5، اور ایم-9 پر بنائے گئے ہیں اور اس کا افتتاح گزشتہ سال 24 دسمبر وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ اور پیپلز پارٹی کی رہنما فریال ٹالپور کی جانب سے کیا گیا ہے۔
صحافیوں کا وفد سورج کی کرنوں کو اپنی آنکھوں میں سمیٹتے ہوئے اور یہ اُمید کرتے ہوئے کہ ورلڈ بینک کے تعاون سے سندھ فلڈ ایمرجنسی ریبلیٹیشن پروجیکٹ (ایس ایف ای آر پی) کے تحت جو کام دکھایا بتایا گیا ہے وہ اسی طرح ایمانداری کے ساتھ مختلف جگہوں پر مکمل کیا جائے گا تاکہ مستقبل میں اندرون سندھ کے شہری، دیہی علاقوں کے مقامی لوگوں کو فائدہ پہنچ سکے۔
دن ڈوبتے ہی صحافیوں کے وفد کی کوسٹر واپس کراچی کی جانب روانہ ہوئی، ہائی وے پر ریسٹورنٹ میں رک کے تمام صحافیوں اور ‘ایس ایف ای آر پی’ ڈپٹی ڈائریکٹر اور ان کے اسٹاف نے چائے پی اور گروپ فوٹو بنایا، کوسٹر کراچی پریس کلب کی جانب روانہ ہوگئی۔