منفرد و ممتاز غزل گو شاعر اور مقبول نعت خواں” مظفرؔ وارثی صاحب “ کا یومِ وفات

0
101

انتخاب: اعجاز زیڈ ایچ

نام محمد مظفّر الدین احمد صدیقی اور تخلص مظفرؔ ہے۔ ۲۳؍دسمبر ۱۹۳۳ء (اکثر جگہوں پر ٢١دسمبر بھی درج ہے) کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے اور لاہور میں بودوباش اختیار کی۔ بہترین نعت گو کا ایوارڈ پاکستان ٹیلی وژن سے ۱۹۸۰ء میں حاصل کیا۔ غالب اکیڈمی دہلی کی جانب سے بہترین شاعر کا ’’افتخار غالب‘‘ ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔ متعدد فلموں کے گانے بھی لکھ چکے ہیں مگر جب سے نعت کہنا شروع کی، فلمی گانوں کو خیر آباد کہہ دیا۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’’برف کی ناؤ‘ (مجموعۂ غزل)، ’بابِ حرم‘ (نعت)، ’لہجہ‘ (غزل)، ’نورِ ازل‘ (نعت)، ’الحمد‘ (حمدوثنا)، ’حصار‘ (نظم)، ’لہوکی ہریالی‘ (گیت)، ’ستاروں کی آبجو‘ (قطعات)، ’کھلے دریچے‘، ’بند ہوا‘ (غزل)، ’ کعبۂ عشق‘ (نعت)، ’لاشریک‘، ’صاحبُ التاج‘، ’گئے دنوں کا سراغ‘، ’گہرے پانی‘۔

مظفر وارثی، 28 جنوری 2011ء کو انتقال کر گئے ۔
بحوالۂ: پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق، صفحہ 282۔

ممتاز شاعر مظفرؔ وارثی صاحب کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت۔

زندگی تجھ سے ہر اک سانس پہ سمجھوتا کروں
شوق جینے کا ہے مجھ کو مگر اتنا بھی نہیں

ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے

لیا جو اس کی نگاہوں نے جائزہ میرا
تو ٹوٹ ٹوٹ گیا خود سے رابطہ میرا

پہلے رگ رگ سے مری خون نچوڑا اس نے
اب یہ کہتا ہے کہ رنگت ہی مری پیلی ہے

کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا نتیجہ نکلا
زخمِ دل آپ کی نظروں سے بھی گہرا نکلا

ہر شخص پر کیا نہ کرو اتنا اعتماد
ہر سایہ دار شے کو شجر مت کہا کرو

کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجازِ سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے

میں اپنے گھر میں ہوں گھر سے گئے ہوؤں کی طرح
مرے ہی سامنے ہوتا ہے تذکرہ میرا

تو چلے ساتھ تو آہٹ بھی نہ آئے اپنی
درمیاں ہم بھی نہ ہوں یوں تجھے تنہا چاہیں

جبھی تو عمر سے اپنی زیادہ لگتا ہوں
بڑا ہے مجھ سے کئی سال تجربہ میرا

وعدہ معاوضے کا نہ کرتا اگر خدا
خیرات بھی سخی سے نہ ملتی فقیر کو

مجھے خود اپنی طلب کا نہیں ہے اندازہ
یہ کائنات بھی تھوڑی ہے میرے کاسے میں

سخن وری ہمیں کب تجربے سے آئی ہے
زباں میں چاشنی دل ٹوٹنے سے آئی ہے

خود اپنے آپ سے پوشیدہ رہنا نا ممکن
نظر بدلتی نہیں آئنہ بدلنے سے

خود مری آنکھوں سے اوجھل میری ہستی ہو گئی
آئینہ تو صاف ہے تصویر دھندلی ہوگئی

ڈبونے والوں کو شرمندہ کر چکا ہوں گا
میں ڈوب کر ہی سہی پار اتر چکا ہوں گا

زخم تنہائی میں خوشبوئے حنا کس کی تھی
سایۂ دیوار پہ میرا تھا صدا کس کی تھی

سانس لیتا ہوں کہ پت جھڑ سی لگی ہے مجھ میں
وقت سے ٹوٹ رہے ہیں مرے بندھن جیسے

تیری جھلک نگاہ کے ہر زاویے میں ہے
دیکھوں تو شکل اپنی مرے آئنے میں ہے

مانا کہ مشتِ خاک سے بڑھ کر نہیں ہوں میں
لیکن ہوا کے رحم و کرم پر نہیں ہوں میں

مجبور سخن کرتا ہے کیوں مجھ کو زمانہ
لہجہ مرے جذبات کا اظہار نہ کر دے

زخمِ دل اور ہرا خونِ تمنا سے ہوا
تشنگی کا مری آغاز ہی دریا سے ہوا

دیدہ سنگ میں بینائی کہاں سے آئے
ظرف مردہ ہو تو سچائی کہاں سے آئے

نکھر سکا نہ بدن چاندنی میں سونے سے
سحر ہوئی تو خراشیں چنیں بچھونے سے

کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا نتیجہ نکلا
زخم دل آپ کی نظروں سے بھی گہرا نکلا

دریا کے کنارے تو پہنچ جاتے ہیں پیاسے
پیاسوں کے گھروں تک کوئی دریا نہیں جاتا

میں اس زمانے کا منتظر ہوں، زمانہ جب بے مثال ہو گا
ہر ایک مسجد مدینہ ہوگی، ہر اک موذن بلال ہو گا

پکارا ہے مدد کو بے کسوں نے ہاتھ خالی ہے
بچا لو ڈوبنے سے، یا رسول اللہ

بارگاہِ حق سے چن کر لاتی رہتی ہے ہوا!
کرتی رہتی ہے نچھاور قبر پر رحمت کے پھول

ہمدردئ احباب سے ڈرتا ہوں مظفرؔ
ميں زخم تو رکھتا ہوں نمائش نہيں کرتا
سحر نے مجھ کو مظفرؔ نہیں کیا صیقل
مری نظر میں چمک رت جگے سے آئی ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں