تحریر: مرزا رفاقت محمود
پاکستان گزشتہ ایک عشرے سے ایک ایسے سیاسی و ریاستی دائرے میں پھنسا ہوا ہے، جس میں گردش کے سوا کوئی سفر نہیں۔ ہر قدم، پیچھے کی طرف اٹھتا ہے۔ ہر کوشش، ایک نیا بحران پیدا کرتی ہے۔ اور ہر ادارہ، بکھرتا دکھائی دیتا ہے۔ اگر 2013 کے بعد کے برسوں کو بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے ریاستی ستونوں کو پہلے مشکوک بنایا، پھر کمزور کیا، اور اب وہ ایک مفلوج جسم کی مانند ہو چکے ہیں جن میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں۔
سن 2017 ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب دستورِ پاکستان، جسے مقدس دستاویز سمجھا جانا چاہیے تھا، عملی طور پر پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ ایک غیر علانیہ مارشل لا ملک پر مسلط کیا گیا۔ اور یہ سب کچھ اس انداز سے کیا گیا کہ دنیا کو دکھانے کے لیے جمہوریت کا ڈھکوسلا برقرار رکھا گیا۔ انتخابات ہوتے رہے، اسمبلیاں بنتی رہیں، وزرائے اعظم آتے اور گھر بھیجے جاتے رہے، لیکن فیصلے کہیں اور ہوتے رہے۔
فوج نے، جو خود کو “واحد منظم ادارہ” کہلوانا پسند کرتی ہے، پہلے سیاست کو غیر مستحکم کیا، پھر عدلیہ کو متنازع بنایا، اور آخر میں بیوروکریسی، میڈیا اور تعلیمی اداروں تک کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ وہ ہر بار اس عمل کو “قومی مفاد” اور “اصلاحات” کا نام دیتی ہے، مگر نتیجہ صرف ایک ہی نکلا ہے: ریاست کی بتدریج ناکامی۔
حقیقت یہ ہے کہ فوج کا ادارہ، اپنی اصل حدود سے تجاوز کر کے جس میدان میں بھی داخل ہوا، وہاں صرف خرابی پھیلائی۔ معیشت، سفارت کاری، داخلہ پالیسی، حتیٰ کہ میڈیا منیجمنٹ- ہر شعبہ ایک تباہ کن تجربہ گاہ بنا دیا گیا۔ اور اب خود فوج ان تباہ کاریوں کو صاف کرنے کی آڑ میں مزید اختیارات سمیٹ رہی ہے۔ اس عمل نے ملک کو ایک ایسے دلدل میں دھکیل دیا ہے، جہاں سے واپسی آسان نہیں۔
ریاستی اداروں کی ساکھ بری طرح مجروح ہو چکی ہے۔ عوام کا اعتماد پارلیمنٹ، عدلیہ اور الیکشن کمیشن جیسے اداروں سے اٹھ چکا ہے۔ سیاسی جماعتیں نظریاتی کم اور شخصی زیادہ ہو چکی ہیں۔ اور یہی وہ لمحہ ہے، جب ہمیں بطور قوم اپنی تاریخ کا سب سے کڑا سوال خود سے پوچھنا ہوگا: کیا ہم اسی دائرے میں گھومتے رہیں گے؟ یا اب کوئی واضح اور مستقل راستہ اپنائیں گے؟
اگر ہم واقعی اس زوال سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم بیمار ہیں، اور بیماری کا نام ہے “اداروں کی مداخلت اور جمہوریت سے انحراف”۔ ہمیں قومی مفاہمت کی اشد ضرورت ہے۔ ایک ایسی مفاہمت جس میں تمام سیاسی قوتیں، عدلیہ، میڈیا اور خود فوج بھی شامل ہوں مگر ایک باقاعدہ آئینی دائرہ کار کے اندر۔
یہ مفاہمت تبھی کامیاب ہوگی جب سیاستدان اپنی ذاتی انا سے بلند ہو کر ملک کے لیے سوچیں گے، جب فوج اپنے آئینی کردار تک محدود ہوگی، جب عدلیہ غیر جانبداری کو شعار بنائے گی، اور جب عوام جمہوریت کو محض ووٹ ڈالنے کا عمل نہیں بلکہ ایک مسلسل ذمہ داری سمجھیں گے۔
یہ ایک طویل سفر ہے، جو شاید ایک دو سال میں نہیں بلکہ دو دہائیوں میں مکمل ہو۔ لیکن کسی بھی طویل راستے کا آغاز ایک سچے اعترافِ جرم اور نیت کی درستگی سے ہوتا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم بھٹک چکے ہیں، اور اب ہمیں واپس آئینی جمہوریت کی طرف لوٹنا ہوگا۔ ورنہ پاکستان مزید کئی عشرے اسی گرداب میں گھومتا رہے گا۔