یور پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو جونیئر

0
13

تحریر: ڈاکٹر اصغر دشتی

برطانیہ میں حال ہی میں جیرمی کوربن اور زارا سلطانہ جیسے بائیں بازو کے مقبول عوامی رہنماؤں کی جانب سے قائم کی گئی نئی سیاسی جماعت “یور پارٹی” ایک ایسا غیر متوقع سیاسی طوفان بن کر ابھری ہے، جس نے برطانیہ کی روایتی جماعتوں خاص طور پر لیبر پارٹی کے خول کو چیر کر رکھ دیا دیا ہے۔ اسی تناظر میں پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی سیاست کے گرد جو نئی توانائی جمع ہو رہی ہے وہ بھی اسی نوعیت کی بغاوت اور متبادل کی تلاش کا مظہر ہے۔ جیرمی کوربن اور زارا سلطانہ دونوں نے برسوں تک لیبر پارٹی کے اندر رہ کر سماجی انصاف اور امن کا بیانیہ آگے بڑھایا مگر اندرونی جبر، پارٹی کی دائیں جانب جھکاؤ والی قیادت اور فلسطین سے متعلق منافقانہ پالیسیوں نے ان جیسے اصول پسند رہنماؤں کو شدید مایوس کیا۔

برطانیہ کی لیبر پارٹی اب نہ تو محنت کش طبقے کی نمائندہ رہی اور نہ ہی عالمی سامراج کے خلاف کھڑی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیرمی کوربن اور زارا سلطانہ نے روایتی سیاست سے بغاوت کر کے “یور پارٹی” کی بنیاد رکھی۔ ایک ایسی جماعت جس کا نعرہ ہے “یہ تمہاری پارٹی ہے” یعنی عوام کی نہ کہ اشرافیہ یا کارپوریٹ طبقے کی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ نئی پارٹی کے اعلان کے صرف ایک ماہ میں 6 لاکھ سے زائد افراد نے یور پارٹی کی رکنیت کے لیے رجسٹریشن کروائی۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو ثابت کرتا ہے کہ عوام اب نمائشی جمہوریت سے نکل کر حقیقی شراکت چاہتے ہیں۔

پاکستان کی سیاست بھی کسی حد تک اسی مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں عوام بالخصوص نوجوان روایتی سیاسی جماعتوں سے اکتا چکے ہیں۔ سب نے عوام کو صرف وعدے، دھوکے، نعرے اور دلاسے  دیے مگر سماجی ناانصافی، غربت، قانون کی حکمرانی، ریاستی جبر اور ماحولیاتی تباہی پر کوئی واضح مؤقف نہیں اپنایا۔ ایسے میں ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی سیاست نے کچھ لوگوں میں ایک نئی امید پیدا کی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر بھٹو نام کے وارث ضرور ہیں مگر اُن کی زبان، فکر، خیالات، نظریات اور ترجیحات اپنے وقت اور عہد کے مخصوص، آزاد اور باغیانہ طرز کی عکاسی کرتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو جونیئر جو فنونِ لطیفہ، ثقافتی سیاست، اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے اپنی آزاد سوچ اور مزاحمتی مؤقف کے لیے جانے جاتے ہیں۔ بتدریح سیاسی میدان میں قدم رکھ چکے ہیں۔ اگرچہ اُن کی پارٹی کا باضابطہ اعلان نہیں ہوا مگر اُن کی پریس کانفرنس، عوامی بیانات، سیاسی دورے، میڈیا ٹاک اور مظلوموں کے ساتھ یکجہتی اُن کے نظریاتی رجحان کی غمازی کرتے ہیں۔ ان کا وژن روایتی جاگیردارانہ خاندانی سیاست سے ہٹ کر عوامی مزاحمت، سیاسی آزادی اور قومی خودمختاری پر مبنی نظر آتا ہے۔ وہ پاکستانی سیاست کی “ریاست پرست” روایات سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔

جب وہ سندھو دریا پر کینالز کی تعمیر، کارپوریٹ فارمنگ، مائنز اینڈ منرلز بل، وسائل کی تقسیم، اقلیتوں، خواتین اور ماحولیات کے حوالے سے بات کرتے ہیں اور جب وہ فن، ثقافت اور مزاحمت کو یکجا کرتے ہیں تو ایسے نوجوان، دانشور، فنکار، سماجی کارکن حتیٰ کہ مایوس سیاسی کارکن بھی اُن کے ساتھ جُڑنے لگے ہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جو اپنی جماعتوں کی مصلحت پسندی، موقع پرستی اور ریاست پرستی سے دل برداشتہ ہو چکے ہیں۔ جیرمی کوربن اور زارا سلطانہ نے برطانیہ میں لیبر پارٹی کے اندر رہ کر طویل لڑائی لڑی مگر جب پارٹی سامراجی مفادات کے ساتھ کھڑی ہوگئی تو وہ الگ ہو گئے۔

بھٹو جونیئر اگرچہ بھٹو کے نام سےجڑے ہیں مگر وہ اس نام کی آڑ میں کی جانے والی کرپشن، مفاہمت پرستی اور عوام دشمن پالیسیوں کے شدید ناقد ہیں۔ وہ موروثی سیاست کی تقدیس کے بجائے عوام کی خودمختاری کا بیانیہ پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پرانے نعرے “جیئے بھٹو” کی جگہ “جیئے عوام” کا نعرہ بلند کرتے ہیں، ایک ایسا نعرہ جو شخصیت پرستی کے بت کو توڑ کر عوامی طاقت کی بحالی کی بات کرتا ہے۔

بھٹو جونیئر ماضی پرستی، شخصیات کی پرستش اور پرانی سیاسی رومانویت سے آگے نکل چکے ہیں۔ وہ تاریخ کا بوجھ اٹھانے کے بجائے حال کے سیاسی تضادات کو سمجھتے ہیں اور موجودہ بحرانوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے نئی حکمتِ عملی، نئی زبان اور نئے سیاسی ڈھانچے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک سیاست صرف ماضی کی وراثت نہیں بلکہ حال کی ذمہ داری اور مستقبل کی تعمیر ہے۔

یور پارٹی کی طرح بھٹو جونیئر کی سیاست بھی ثقافتی، اخلاقی، نظریاتی اور فکری بنیادوں پر کھڑی ہے۔ یہاں فوجی، مذہبی یا لسانی کارڈ نہیں بلکہ انسان، عزت، مزاحمت اور انصاف کی زبان بولی جاتی ہے۔ بھٹو جونیئر مساوات اور آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ برطانیہ کے محنت کش اور اقلیتی پرتوں کی طرح پاکستان کے نوجوان، مزدور، طلبہ اور فنکار بھی ایک نئے سیاسی مقام کی تلاش میں ہیں۔ بھٹو جونیئر اُن کے لیے ایک ایسا نام بنتے جا رہے ہیں جسے وہ اپنی آواز سمجھتے ہیں۔

پاکستان کے نوجوان، مزدور، طلبہ اور فنکار اس نظام سے بیزار ہو چکے ہیں جو اُن کی محنت کو لوٹتا ہے اُن کی آواز دباتا ہے۔ وہ اب محض ووٹ ڈالنے والے شہری نہیں تبدیلی کے متلاشی اور سوال اٹھانے والے بن رہے ہیں۔ اسی تلاش میں ذوالفقار علی بھٹو جونیئر اُن کے لیے ایک نئی امید، ایک متبادل راستہ اور ایک جاندار سیاسی علامت بنتے جا رہے ہیں۔ ایک ایسا نام جو اُن کے دکھ بولتا ہے۔ ایک ایسا چہرہ جو اُن کی آواز بن رہا ہے۔ یور پارٹی کی حیرت انگیز عوامی پذیرائی اور پاکستان میں بھٹو جونیئر کی تیزی سے ابھرتی ہوئی سیاسی مقبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ اب صرف چہرے نہیں نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ یہ تبدیلی صرف پارلیمان یا میڈیا کے ذریعے نہیں آئے گی بلکہ یہ عوامی شراکت اور سیاسی مزاحمت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

“یہ تمہاری پارٹی ہے” یہ صرف برطانیہ کے جیرمی کوربن اور زارا سلطانہ کا نعرہ نہیں بلکہ یہ وقت کی صدا ہے۔ پاکستان میں بھی لوگ کہنا چاہتے ہیں “یہ ہماری سیاست ہے! سرمایہ داروں ،جاگیرداروں، جرنیلوں، سرداروں ،وڈیروں اور بوتاروں کی نہیں”۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں