تحریر: آفتاب مغیری
اپنی صحافتی زندگی میں دکانوں، گھروں، پلاٹوں اور یہاں تک کہ قبرستانوں کی زمین پر قبضے ہوتے تو بہت دیکھے، مگر گورنر ہاؤس پر قبضے کی داستان پہلی مرتبہ سننے کو ملی۔ اور وہ بھی کسی قبضہ گروپ کی طرف سے نہیں، بلکہ ایک آئینی عہدے پر فائز شخصیت کی غیر موجودگی میں۔
ہوا کچھ یوں کہ گورنر سندھ کامران ٹسوری صاحب ملک سے باہر گئے، اور ساتھ ہی گورنر ہاؤس کی “چابی” بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ آئینی طور پر ان کی غیر موجودگی میں قائم مقام گورنر اسپیکر اسمبلی اویس شاہ کو ذمے داریاں سنبھالنی تھیں، مگر ان کی راہ میں جو رکاوٹ بنی، وہ کوئی اور نہیں بلکہ “اختیار کا تالہ” تھا۔ اور وہ تالہ صرف ٹسوری صاحب کی مرضی سے کھلتا ہے۔
یہ صرف ایک چابی کی کہانی نہیں، بلکہ طاقت کے نئے تماشے کی کہانی ہے۔
کامران ٹسوری صاحب ایسے گورنر ہیں جن پر حال ہی میں کراچی کے میئر کراچی نے ایک جاندار پریس کانفرنس کی، لیکن حالات نے ایسی کروٹ لی کہ وہی میئر کراچی کچھ دن بعد گورنر صاحب کے سامنے معافی مانگتے نظر آئے۔ اب لگتا ہے کہ اویس شاہ بھی اگر زیادہ “اصرار” کریں تو شاید ان کو بھی معذرت کرنی پڑے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ گورنر کا عہدہ آئینی ہے یا شخصی؟
اگر آئینی ہے تو ہر آئینی قدم کے لیے دروازے کھلے ہونے چاہئیں،
اور اگر شخصی ہے، تو پھر گورنر ہاؤس کا نام بدل کر “ٹسوری اسٹیٹ” رکھ دینا چاہیے۔
یاد رہے، ایم کیو ایم کے ادوار میں عشرت العباد جیسے طاقتور گورنر آئے، جو کئی سالوں تک اس منصب پر فائز رہے۔ اُن کے تعلقات مقتدر حلقوں سے بھی تھے، اور پارٹی پالیسی سے بھی ہم آہنگ تھے۔ مگر عشرت العباد بھی اپنے اختیارات کا ایسا مظاہرہ نہ کر سکے، جیسا کہ ٹسوری صاحب نے کیا ہے۔ نہ عشرت العباد نے کسی قائم مقام گورنر کو باہر رکھا، نہ پریس کانفرنسوں کے بعد معافی کے مناظر سامنے آئے۔
کامران ٹسوری کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ نہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کچھ بول سکتی ہے، نہ حکومت سندھ۔
ان کے ہر عمل کے آگے بس ایک جملہ ہے: “ٹسوری صاحب کی مرضی ہے!”۔
ہم نے آئین، قانون اور جمہوریت کی باتیں بہت سنی ہیں،
مگر اب شاید وقت آ گیا ہے کہ ایک نیا آئین لکھا جائے:
جس کا پہلا آرٹیکل ہو۔
“حکومت وہی جو ٹسوری چاہے!”۔