تحریر: مقبول خان
اردو شاعری میں ایک نئی صنف سخن چوکھمبی معروف شاعر یوسف راہی چاٹگامی کی اختراع ہے۔چوکھمبی کے لغوی معنی چار ستون والی یا والا، یہ صنف صوتی اعتبار سے موئنث ہے ،اسی لئے یوسف راہی نے اپنی اختراع کردہ صنف کا نام چوکھمبی رکھا ہے۔ اس نئی صنف سخن میں چار مصرعے رکھے گئے ہیں، اب تک اردو شاعری میں چار مصرعوں کے اصناف قطعہ رباعی اور مربع پائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ صنف تکنیکی اور ہیئت کے اعتبار سے دنیائے شعر ادب میں اجنبی نہیں ہے، اس میں مخصوص بحر کی پابندی کے ساتھ چاروں مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔ اس میں موضوع کی کوئی قید نہیں ہوتی ہے۔ اس صنف میں شاعری کر نے والے کو چوکھمبی نگار اور اس کی لکھاوٹ کو چوکھمبی نگاری کا نام دیا جاسکتا ہے۔

شاعر اپنے خیالات اور تجربات کو اس صنف میں پیش کر سکتا ہے۔ چو کھمبی میں شاعرانہ نزاکت کے ساتھ اس میں محاسن بھی ہیں، اس یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاعری کی اس نئی صنف کو دنیائے بشعر و ادب میں پذیرائی ضرور ملے گی۔ یوسف راہی چاٹگامی نے اپنی ایک چوکھمبی میں اپنی ایجاد کردہ صنف کا اس طرح ایک چوکھمبی میں تعارف کرایا ہے۔
ہے چوکھمبی اک ہیئت نو اے راہی؛ میں اس کا موجد ہے ایجاد میری
ہے بحر تقارب فقط بحر اس کی; پسندیدہ ہوگی، یہ صنف سخن بھی
یوسف راہی کی دو چوکھمبیاں نذر قارئین ہیں، جس سے اس صنف کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔
برائی سے دامن چھڑاواے لوگو؛ جہنم سے خود کو بچاو اے لوگو
جو ہے اصل چہرہ دکھاو اے لوگو؛ نہ دل کو کسی دکھاو اے لوگو
دوسری چوکھمبی ملاحظہ فرمائیں۔
وطن ہی فقط میرا ارمان ہے؛ وطن میرا ایمان ہے جان ہے
وطن ہی سے اونچی میری شان ہے؛ یہی زندگی ہے، یہی مان ہے
یوسف راہی عصر حاضر کے ایک زیرک شاعر ہیں، وہ ایسے شعراء کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، جو شعر و سخن میں تجربے کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ فن جامد نہیں رہتا ہے، اس وقت کے ساتھ تبدیلیاں بھی ناگزیر ہوجاتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ یوسف راہی چاٹگامی کی اختراع کردہ شاعری کی یہ صنف قطعہ یا چہار مصرعی کی تبدیل شدہ شکل ہے۔ جس کا ماخذ ہندی صنف سخن بتایا جاتا ہے۔ جسے یوسف راہی چاٹگامی نے اردو میں چوکھمبی کے نام سے متعارف کرایا ہے۔ توقع ہے دیگر شعراء بھی اس صنف میں طبع آزمائی کریں گے، اور اسے آنے والے دنوں میں قبولیت عامہ کی سند بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ یوسف راہی نے چوکھمبی کی بحر بھی مخصوص کی ہے۔ انہوں نے اس صنف کے لئے بحر متقارب مثمن سالم میں مخصوص کر دیا ہے۔ ایک مصرعہ میں چار مرتبہ فعولن آتا ہے۔ اس بحر کے آخری رکن کو تسبیغ بھی کر دیتے ہیں، یعنی ایک حرف زیادہ کر کے اسے فعولان بھی کردیتے ہیں۔ یوسف راہی کی چوکھمبیاں مستبغ، مقصور، اور مخذوف ارکان میں بھی مو جود ہے۔
یوسف راہی چاٹگامی سینئر اور ایک سادہ گو اور خوش فکر شاعر ہیں، ان کا مشاہدہ خاصا گہرا ہے، وہ اپنے مشاہدات کو اشعار کے سانچے میں ڈھالنے کے فن سے بھی واقف ہیں۔ اسے حوالے سے انہیں معاشرے کا ترجمان کہنا غلط نہ ہوگا۔ انہوں نے، نعت، حمد اور غزل سمیت نظمیں بھی کہی ہیں۔یوسف راہی چاٹگامی تو ان کا قلمی نام ہے، جبکہ سابقہ مشرقی پاکستان کے شہر چاٹگام میں 1953 میں پیدا ہونے والے یوسف راہی کا اصل نام محمد یوسف ہے۔ میں نے ان کی غزلوں کے مجموعے اشک سوزاں، نعتیہ مجموعہ ولائے محمد ﷺ، اور نعتیہ چو کھمبیوں کے مجموعے کا مطالعہ کیا ہے۔ اس حوالے سے میں یہ کہ سکتا ہوں کہ ان کا بیانہ انداز شاعرانہ حسن لئے ہوئے ہے۔ ان کا اسلوب سپاٹ، اور
بے نمک نہیں بلکہ پر کشش بھی ہے۔ معاشرتی صورتحال پر گہری نظر ہے۔ وہ معاشرے میں جو دیکھتے ہیں ،اسے شعری قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔ یوسف راہی کی شاعری میں احساس محرومی، قنوطیت، نا امیدی، اور کم حوصلہ افکار نہیں ملتے ہیں۔ وہ ہمت مردانہ، سعی مسلسل اور سعی عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ اپنے کلام میں برائیوں کو روکنے اور اچھے کاموں کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں، اور اس میں وہ قدر کامیاب بھی ہیں، اس لئے انہیں اگر اصلاحی شاعر قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یوسف راہی نے اپنی چوکھمبیوں میں جن موضوعات کا احاطہ کیا ہے، ان میں حمد، نعت، منقبت، وطن، والدین، اور سماجی و معاشرتی حالات شامل ہیں۔ اس پس منظر میں یوسف راہی نے اپنے ہم عصروں اور ادب کے طالب علموں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ چوکھمبی میں ہر موضوع نظم کیا جاسکتا ہے۔ رنگ ادب پبلیکیشنز کے تحت شائع ہونے والی کتاب چوکھمبیاں (اردو ادب کی نئی صنف سخن ) 192صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کا انتصاب ممتاز دانشور نصرت مرزا کے نام ہے۔ کتاب کا مقدمہ خیام العصر محسن اعظم محسن ملیح آبادی کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔ کتاب پر شفیق احمد شفیق نے بھی اظہار خیال کیا ہے۔
گذشتہ دنوں رنگ ادب پبلیکیشنز کراچی کے تحت شائع کی جانے والی دو کتابیں چو کھمبیاں (اردو ادب کی ایک نئی صنف سخن) اور نعتیہ چوکھمبیاں روزنامہ نئی بات کراچی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر جناب مقصود یوسفی کی توسط سے یہ دونوں کتابیں موصول ہوئی تھیں۔ یہ دونوں کتابیں سینئر شاعر یوسف راہی کی تخلیق کردہ ہیں۔ کتاب چوکھمبیاں پر تو مذکورہ بالا اجمال میں تفصیلی اظہار خیال کے بعد یوسف راہی کی تخلیق کردہ نعتیہ چوکھمبیوں پر بات کرنا ہے۔ بلا شبہ تقدیسی ادب میں نعتیہ چوکھمبیاں ایک نئی صنف سخن ہے۔
یوسف راہی چاٹگامی جو گذشتہ 45 سال سے شعر گوئی میں مصروف عمل ہیں، ان کی نعتیہ چوکھمبیوں کو پڑھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یوسف راہی نے خاتم الانبیاء رسول اکرمؐ کی مدحت میں عشق رسول میں ڈوب کر نعتیہ چوکھمبیاں کہی ہیں۔ یہ چوکھمبیاں انتہائی موثر معنی آفریں ہیں۔ یہ کلام کی روانی، سلاست و شیفتگی بیان میں تازگی کا احساس دلاتی ہیں۔ یہ چو کھمبیاں یوسف راہی کو دور حاضر کے سلیقہ مند اور ہنر ور شاعروں کی صف میں کھڑا کرتی ہیں۔ کتاب نعتیہ چوکھمبیوں کے سرسری مطالعہ کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی چو کھمبیاں پڑھ کر قلبی مسرت حاصل ہوتی ہے۔ اور شعری حظ بھی ملتا ہے۔ ان کا یہ مجموعہ چوکھمبی زبان و بیان، اسلوب، اظہار فکر، شعری سوچ، سلاست وروانی کے اعتبار سے موثر ہے۔ یوسف راہی کے اس شعری مجموعے میں نہ تو بھاری بھر کم الفاظ ملتے ہیں، اور نہ ہی تشبیہات اور استعارات کا سہارا ملتا ہے۔ علامتوں کا استعمال بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تشبیہات اور استعاروں و علامتوں کا استعمال نعت کے شایان شان نہیں ہے۔ کتاب میں چوکھمبیوں کی تعداد خاصی ہے، یہ چوکھمبیاں تحقیقی انداز لئے ہوئے ہیں، جبکہ کچھ تو احادیث کا مفہوم بھی پیش کرتی ہیں۔ یوسف راہی کی چوکھمبیوں میں سے اکثر ایسی ہیں، جنہیں تلمیحاتی کہا جاسکتا ہے۔ ان کے مطالعہ سے تاریخ اسلام اور سیرت نبویؐ کے کئی پہلو بھی سامنے آتے ہیں۔ ان چوکھمبیوں کے مطالعے کے دوران قبل از بعثت اور بعد از وقت بعثت کے ادوار میں بھی جھانکنے کا موقعہ ملتا ہے۔ یوسف راہی اپنی چوکھمبیوں میں سیرت نگار، مورخ، کہیں مبلغ اور کہیں مصلح کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ انہوں ان چو کھمبیوں میں صراط مستقیم پر چلنے، رسول اکرم کی سیرت پر عمل کر نے کا درس بھی ملتا ہے۔
کتاب میں حمدیہ چوکھمبیاں بھی ہیں۔ یوسف راہی چاٹگامی کی نعتیہ چوکھمبیوں کا ایک یہ بھی مستحسن پہلو ہے، کہ اس میں انہوں نے احد اور احمد کا فرق واضح طور پر ملتا ہے۔ انہوں نے نعت اور حمد کو اپنے اپنے مقام و مرتبے پر رکھا ہے۔ یوسف راہی چاٹگامی کی کتاب نعتیہ چوکھمبیاں اردو ادب میں ایک اضافہ ہے۔ یہ کتاب 152 صفحات پر مشتمل ہے، جسے رنگ ادب پبلی کیشنز کے تحت شائع کیا گیا ہے۔ کتاب کا سرورق اگر چہ سادہ ہے، لیکن رنگوں کے امتزاج نے اسے دیدہ زیب بنا دیا ہے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ کتاب تقدیسی ادب پڑھنے والوں کے لئے ایک مفید کتاب ثابت ہوگی۔
رنگ ادب پبلیکیشنز کے تحت شائع ہونے والی کتابوں نعتیہ چوکھمبیاں اور دوسری کتاب چوکھمبیاں اردو ادب کی ایک نئی صنف کی اشاعت پر معروف شاعر یوسف راہی چاٹگامی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ دونوں کتابیں علمی اور ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کریں گی۔ بلا شبہ ان دونوں کتابوں کی اشاعت کے بعد یوسف راہی چاٹگامی کے قدو کاٹھ میں مزید اضافہ ہوگا۔