انٹرویو: مقبول خان
برصغیر میں قوالی موسیقی کی وہ صنف ہے جس میں سازو آہنگ کے ساتھ تقدیسی شاعری (حمد، نعت اور منقبت) پیش کی جاتی ہے۔ جس میں وقت گذرنے کے ساتھ غزل، سہرا اور قصیدہ بھی شامل ہوگیا ہے۔ قوالی اپنے اندر ساڑھے سات سو سالہ تاریخی پس منظر سموئے ہوئے ہے۔ قوالی کے اس پس منظر کے ساتھ ایک نام میاں صامت بن ابراہیم کا بھی جڑا ہوا ہے۔ صامت بن ابراہیم کو اس حوالے سے قوالی کا جد امجد کہا جائے، تو غلط نہ ہوگا۔ یہ حضرت امیر خسرو کے شاگرد تھے، جو برصغیر میں قوالی کے بانی کہلاتے ہیں۔ گذشتہ دنوں میاں صامت بن ابراہیم کی 27ویں پشت سے تعلق رکھنے والے نوجوان قوال برادران فتاح الخیر علی اور ابو تراب علی سے نئی بات کراچی کے دفتر میں ایڈیٹر جناب مقصود یوسفی صاحب کی اجازت سے جو گفتگو ہوئی وہ نذر قارئین ہے۔
سوال: قوال کے طور پر ہمارے قارئین سے خود کو متعارف کرائیں؟
جواب: ہم جدی پشتی قوال ہیں۔ ہمارا خانوادہ گذشتہ ساڑھے سات سو سال قوالی سے وابستہ ہے۔ میرے دادا منشی رضی الدین، اور نانا قطب الدین قوال ہیں۔ قطب الدین قوال معروف قوال بہاوالدین کے ہمنوا تھے۔ میرے دادا کے چاروں بیٹے فرید ایاز، ابو محمد، اکرم اور سب سے چھوٹے صاحبزادے علی اکبر رضی قوال ہیں۔ 2017 میں ہمارے والد علی اکبر رضی اپنے بھائیوں کے گروپ سے علیحدہ ہوگئے، اور انہوں نے قوالی کا اپنا گروپ تشکیل دیا، اس کے بعد سے ہم اپنے والد کی زیر نگرانی فتاح علی۔ تراب علی کے نام سے قوالی پیش کررہے ہیں۔فتاح علی کی روائتی تعلیم انٹر میڈیٹ اور تراب علی میٹرک پاس ہیں۔ دونوں بھائیوں نے بر صغیر کی راوئتی موسیقی اپنے والد علی اکبر رضی قوال سے حاصل کی، جبکہ جدید اور مغربی موسیقی کے فن اور رموز سے معروف ادارے ناپا میں سیکھے۔ ہم گارڈن کراچی کے علاقے شو مارکیٹ کی معین نیازی قوال اسٹریٹ کے مکین ہیں۔ ہماری پوری برادری اسی گلی میں مقیم ہے۔ ہمارے خانوادے کے سات افراد صدارتی ایوارڈ یافتہ ہیں۔
سوال: سنا ہے کہ آپ قوالی کا ایک گروپ لے کر 17 اپریل کو امریکا جا رہے ہیں۔ اس کی تفصیل بتائیں؟
جواب: عام طور پر ہمارا قوال گروپ 12 سے 14افراد پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن ہم پانچ لوگ اپنے والد کی نگرانی میں امریکا میں متعدد شوز کریں گے۔ اس دورے میں ہمارے والد علی اکبر رضی، ہم دونوں بھائیوں کے علاوہ ضیاء محمد اور میر ایوب بھی گروپ میں شامل ہیں۔ ہم دونوں بھائی گانے کے ساتھ ہارمونیم پر ہونگے، ضیاء محمد کورس کرتے ہیں اور تال بجاتے ہیں۔ میر ایوب ردھم پر طبلہ اور ڈھولک بجاتے ہیں۔ جبکہ والد صاحب ہمارے نگراں کے ساتھ ہمنوا بھی ہونگے۔

سوال: امریکا میں آپ کے شوز میں سامعین کون ہونگے؟
جواب: امریکا کے جس علاقے میں بھی ہم اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے، وہاں اور اطراف میں رہائش پذیر پاکستانیوں سمیت، بھارتی، بنگلہ دیشی شہریوں سمیت امریکن اور دیگر ممالک کے رہنے والے بھی شرکت کرتے ہیں۔ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے لوگ اگرچہ اُردو سے نا آشنا ہوتے ہیں، لیکن وہ قوالی کے سازو آہنگ سے بھر پور لطف اٹھاتے ہیں، کیونکہ برصغیر کی روائتی موسیقی سحر انگیز ہے۔ وہ اپنے سامعین اور ناظرین کے دل و دماغ پر چھا جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہم نے بیرون ملک پبلک مقامات کے علاوہ گرجا گھروں، مندروں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ بھارت کے دورے میں ہم نے کلکتہ (کول کٹا) میں ایک مرکزی مندر میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا، جہاں ہم نے حمد، نعت اور منقبتیں بھی پیش کیں۔
سوال: موجودہ دور پاپ گلوکاروں کا ہے، لوگ بھی اسے زیادہ پسند کرتے ہیں، کیا آپ قوالی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر رہے، یا وہی اپنے روائتی انداز کو جاری رکھیں گے؟
جواب: یہ قانون فطرت ہے کہ ہر چیز میں وقت کے تقاضوں کے ساتھ تبدیلی آتی ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں، ہم بھی اپنی وراثت اور روائتی موسیقی کے ساتھ قوالی کو جدید تقاضوں کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاکہ ہمارے سننے اور دیکھنے والے ہمارے ساتھ جڑے رہیں۔ ہمارے بڑوں نے اپنا روائتی انداز نہ بھولنے کا درس دیا ہے۔ ہم اس کے اندر ہی جدید تقاضوں کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ ہم بھارت سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں اپنا فن پیش کرتے رہے ہیں، لیکن یہ امریکا کا ہمارا ذاتی گروپ کے ساتھ پہلا دورہ ہے۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے، ہماری قوالیوں کے کلپس سوشل میڈیا پر دستیاب ہیں۔ جنہیں دیکھ کر لوگ ہمیں اپنی تقریبات میں مدعو کرتے رہتے ہیں۔
سوال: موجودہ دور کے قوالوں کے ساتھ آپ اپنا موازنہ کیسے کریں گے؟
جواب: سب ہی اپنے اپنے انداز میں کام کر رہے ہیں۔ہمارا بھی اپنا انداز ہے، ہم اپنے سامعین اور ناظرین کے سامنے اپنا فن اس طرح پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں پسند آئے، اور ہم ابھی تک اپنی اس کوشش میں کامیاب رہے ہیں۔ جہاں تک پیشہ ورانہ مسابقت کی بات ہے، وہ تو ہر شعبے میں ہوتی ہے، جب تک ہمارے سننے اور دیکھنے والے ہمیں سنتے رہیں گے، ہم کامیاب ہیں۔ قوالی بھی جدید دور میں شوبز ہے، ہم اپنے فن سے ہی پبلک کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔ اس کا شارٹ کٹ نہیں ہے۔
سوال: شو کے دوران اگر مجمع اکھڑنے لگے تو آپ کیا کرتے ہیں؟
جواب: ہمارے ساتھ ایسا کم ہوتا ہے، ہم پبلک کو اپنا فن پیش کرنے کے دوران انگیج رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قوال ہو یا کوئی بھی فنکار جب تک وہ اپنے سامعین اور ناظرین کو انگیج رکھے گا، پبلک بھی اس کے ساتھ رہے گی۔ جو فنکار یا قوال پبلک کو انگیج نہیں کرتا، اسے عوام مسترد کردیتے ہیں۔ کسی بھی فنکار کے لئے پبلک کے دل و دماغ کو اپنی طرف متوجہ رکھنا ضروری ہے۔
سوال: صابری برادران، عزیز میاں، نصرت فتح علی خان، بہاوالدین اور منشی رضی الدین قوال ماضی قریب میں نامور قوال رہے ہیں، یہ لیجنڈ کہلاتے ہیں، آپ کو ان میں سے کس کا اسٹائل پسند ہے، اور کس سے متاثر ہیں؟
جواب: بلاشبہ یہ سب اپنے وقت کے نامور قوال تھے، ہمیں سب ہی پسند ہیں، لیکن ہمارا قوالی پیش کرنے کا وہی انداز ہے، جو ہمیں اپنے آباو اجداد سے ورثہ میں ملا ہے، ہم اسی اسٹائل کو جدید تقاضوں کے ساتھ لے کر چل رہے ہیں اور ہم اس میں کامیاب بھی ہیں۔ ہم اپنے قارئین سے گزارش کرںں گے کہ وہ ہمارے دورہ امریکا کی کامیابی کے لئے دعا کریں۔