تحریر: مقبول خان
عالم اسلام کے بلند پایہ خطیب، عالم، مستند مترجم صحافی اور شاعر رشید ترابی کا اصل نام رضا حسین، قلمی نام علامہ رشید ترابی 9 جولائی 1908 کو برطانوی ہند کی ریاست حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان اصل نام رضا حسین تھا لیکن رشید ترابی کے نام سے مشہور ہوئے۔ علا مہ رشید ترابی کی شہرت اگرچہ مایہ ناز خطیب کی ہے، لیکن ہم یہاں ان کا زکر صحافی، شاعر مترجم کے طور پر کرینگے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم علامہ سید علی شوستری، آغا محمد محسن شیرازی، آغا سید حسن اصفہانی اور علامہ ابوبکر شہاب عریضی سے حاصل کی، شاعری میں نظم طباطبائی اور علامہ ضامن کنتوری کے شاگرد ہوئے، ذاکری کی تعلیم علامہ سید سبط حسن صاحب قبلہ سے اور فلسفہ کی تعلیم خلیفہ عبدالحکیم سے حاصل کی۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے بی اے اور الہ آباد یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم اے کیا۔ علامہ رشید ترابی عملی سیاست سے بھی منسلک رہے اور نواب بہادر یار جنگ کے ساتھ مجلس اتحاد المسلمین کے پلیٹ فارم پرفعال رہے۔ محمد علی جناح کی ہدایت پر انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور 1940 میں حیدرآباد دکن کی مجلس قانون ساز کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ عقیل ترابی و نصیر ترابی سلمان ترابی ان کے فرزند ہیں۔ علامہ رشید ترابی کو اردو کے ساتھ انگریزی، فارسی اور عربی پر دسترس حاصل تھی۔
دسمبر 1947 میں علامہ رشید ترابی کو قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان مدعو کیا تاکہ حضرت مالک اشتر کے نام لکھے گئے حضرت علی بن ابی طالب کے مشہور خط کا انگریزی میں ترجمہ کریں۔ یہ صفر کا مہینہ تھا، رشید ترابی کی کراچی میں موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کراچی کے ایک مہتممِ مجالس سید محمد عسکری نے رشید ترابی کو خالق دینا ہال کراچی میں صفر کے دوسرے عشرہ مجالس سے خطاب کرنے کی درخواست کی۔ علامہ نے یہ درخواست قبول کرلی اور 10 صفر، 1367ھ(24 دسمبر 1947) سے چہلم تک خالق دینا ہال میں اپنے پہلے عشرہ مجالس سے خطاب کیا۔ اس کے بعد (سے 26 سال تک) وہ جب تک زندہ رہے وہ خالق دینا ہال میں ہر برس مجالس کے عشرے سے مستقل خطاب کرتے رہے۔
انہوں نے 1951 سے 1953 تک کراچی سے روزنامہ المنتظر کا اجرا کیا۔ اس سے قبل انہوں نے حیدرآباد دکن سے بھی ایک ہفت روزہ انیس جاری کیا تھا۔ 1957 میں ان کی مساعی سے کراچی میں 1400 سالہ جشن مرتضوی بھی منعقد ہوا۔ علامہ رشید ترابی ایک قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ ان کے کلام کا ایک مجموعہ شاخ مرجان کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی مرتب کردہ کتابیں طب معصومین، حیدرآباد کے جنگلات اور دستور علمی و اخلاقی مسائل بھی شائع ہوچکی ہیں۔
تصنیف و تالیف میںشاخ مرجان، طب معصومین، حیدرآباد کے جنگلات، اور دستور علمی و اخلاقی مسائل شامل ہیں۔
علامہ رشید ترابی 18 دسمبر 1973 کو کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی میں حسینیہ سجادیہ کے احاطے میں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کے چند
اشعار نذر قارئین ہیں۔
خدا کی راہ میں کٹتی ہے یوں شب ہجرت
نفس نفس پہ جناں، لا الہ الا اللہ
دعائیں دیتی ہوئی بے کسی آگے بڑھی
کیا جو برق نے جھک جھک کے آشیاں کو سلام
پرائے تنکے تھے آندھی کا اک بہانہ تھا
گھر اپنا دیکھ لیا، عمرِ رائیگاں کو سلام
ایک سجدے میں کیا کون و مکاں کو اپنا
مر گئے اور ترے بندوں سے خدائی نہ گئی
ہوائے دوست میں فکرِ صراط کیا کرتے
زمیں پہ پاوں نہ تھے احتیاط کیا کرتے
زندہ ہوں آج جو یہ شہر بسانے والے
خلد کا نام نہ لیں خلد کے جانے والے