تحریر: مقبول خان
70کی ہائی کے اوآخر تک تعلیمی اداروں کے طلباء طالبات قوم پرستانہ نعروں اور قومیت اور فرقوں کی بنیاد پر طلباء تنظیموں سے نا آشنا تھے۔ اس وقت طلباء تنظیمیں صحت مند غیر نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ملکی سیاسی معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتی تھیں، اس وقت طلباء تنظیمیں نظریاتی بنیادوں پر استوار تھیں، ترقی پسند، لبرل، ڈیموکریٹس، اور اسلام کے حوالے سے طلباء تنظیمیں سرگرم تھیں، یہ طلباء یونینز جمہوریت کی نرسریاں کہلاتی تھیں، ان کے توسط سے دیانتدار، محب وطن اور سیاسی شعور والے نوجوان سیاستدانوں کی صف میں شامل ہورہے تھے، جو ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی اور سیاسی استحکام کے لئے کام کر رہے تھے۔ یہ سلسلہ سابق وزیراآعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک جاری رہا۔ 4جولائی1977 کو جب اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل محمد ضیاءالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت برطرف کی اور وہ خود اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے تو جمہوریت اور جمہوری اقدار کا یکے بعد دیگرے جنازہ بڑی دھوم دھام سے نکالا جاتا رہا۔ اقتدار کو طول دینے کےلئے پہلے تو نفاز اسلام کا نعرہ لگایا گیا، پھر غیر جماعتی جمہوریت متعارف کرائی گئی اس کے ساتھ طلباء یونینز پر پابندی عائد کردی گئی۔ یہ وہ وقت تھا طلباء یونینز تعلیمی اداروں میں فعال کردار ادا کررہی تھیں، طلباء و طالبات یونیورسٹی اور کالجوں میں اپنی 75 فیصد حاضری یقینی بناتے تھے، جس کے بغیر امتحانات میں شرکت کرنا ناممکن تھا، اسی طرح اساتذہ بھی اپنی تدریسی سرگرمیاں دیانتداری کے ساتھ نبھاتے تھے، اور تعلیمی اداروں سے کرپشن، لاقانونیت، غنڈہ گردی اور تشدد کے واقعات بھی نہیں ہوتے تھے۔
سیاست کا ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ جنرل محمد ضیاءالحق نے طلباء یوینینز پر پابندی کیوں لگائی تھی۔ یہ ایک سادہ سی بات ہے کہ جنرل ضیاء اور ان کے حواری اس حقیقت سے آشنا تھے، اور خوفزدہ بھی تھے کہ سیاسی جماعتوں سے بڑھ کر طلباء تنظیمیں ان کے اقتدار کو چیلنج کرسکتی ہیں، ان کے سامنے یہ تاریخی حقیقت تھی کہ طلباء ہی کی وجہ سے ملک میں جمہوری کلچر پروان چڑ رہا تھا اور طلباءہی کی جدوجہد نے جنرل ایوب خان کو اقتدار سے محروم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ طلباء نے بھی جنرل ضیاء کے آمرانہ اقدامات کے خلاف مزاحمت شروع کر رکھی تھی۔جنرل ضیاءکو خدشہ تھا کہ طلباءکی جانب سے یہ مزاحمت کسی بھی وقت ان کے خلاف ملک گیر جدوجہد میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ لہذا 9 فروری 1984 کو اس وقت کے صدر جنرل محمد ضیاءالحق کی حکومت نے پاکستان کے تمام تعلیمی ادروں میں طلباء یونینز پر پابندی کا حکنامہ جاری کیا تھا، یہ دن طلباء برادری طلباء یونینون کے قتل کے دن کے طور پر آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس پابندی کے بعد نسلی و لسانی اور فرقہ واریت کے نام پر مختلف تنظیموں اور جماعتوں کے طلباء ونگ قائم ہونا شروع ہوگئے، آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، پنجابی اسٹوڈنٹس فیڈریشن، اثناء عشری اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سمیت دیگر لسانی گروپوں اور مذہبی فرقوں کی بنیاد پر طلباءبونگز سرگرم ہوگئے، جس کے نتیجے میں تعلیمی اداروں میں کشیدگی بڑھی اور پے درپے پر تشدد واقعات رونما ہونے لگے، اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ محض تماشائی بن کر رہ گئی، طلباء کا رجحان تدریس سے ہٹ کر منفی سرگرمیوں کا محور بن گیا،اور طلباء میں تیزی سے امتحانات کے دوران نقل کلچر وبائی مرض کی طرح پھیلتا چلا گیا،بجس کا منطقی نتیجہ پست تعلیمی معیار کی صورت میں سامنے آیا۔
آج صورتحال یہ ہے کہ بیشتر نوجوانوں کے پاس تعلیمی سند تو ہے، لیکن وہ مطلوبہ قابلیت اور صلاحیت سے محروم ہیں، ڈگری ہونے باوجود انہیں بیروزگاری کا سامنا ہے۔ دوسری طرف طلباء یونینوں کی وجہ سے تعلیمی ادروں میں سکون تھا اور صحت مند مقابلے کی فضا تھی، مختلف یونینز کے درمیان نظریاتی جنگ تھی، اصولوں اور اقدار کی پاسداری کی جاتی تھی، اس وقت کا طالبعلم اپنے مخالفین کے ساتھ گولی کے بجائے دلائل سے گفتگو کرتا تھا۔ آج سیاستدان تعلیم ادروں میں کرپشن کا رونا رو رہے ہیں، میڈیا میں بھی آئے دن تعلیمی اداروں میں ہونے والی کرپشن کی خبریں آتی رہتی ہیں، مگر ماضی میں طلباء یونینز کے فعال کردار اور چیک اینڈ بیلنس کی وجہ سے تعلیمی ادروں میں کرپشن کا تصور تک نہیں تھا۔ طلباء یونینز ہی تعلیمی اداروں کا فنڈز طلباء کی فلاح بہبود پر لگانے کےلئے جامعات کی انتظامیہ کو مجبور کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جامعات اور کالجوں میں اس دور میں جو ہاسٹلز بنائے گئے تھے، وہی آج بھی موجود ہیں۔ طلباءکی بڑھتی ہوئی تعداد اور نئے شعبہ جات معرض وجود میں آنے کے باوجود ان کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے، ماضی کے طلباء کو جو سہولتیں اور مراعات حاصل تھیں، آج کا طالب علم ان سے بھی محروم ہوچکا ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ماضی کی طرح اب تعلیمی ادروں سے متوسط اور نچلے متوسط درجے سے نئی لیڈر شپ سامنے نہیں آرہی ہے اور پاکستان میں موروثی سیاست مستحکم ہورہی ہے۔
اس وقت پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں چند خاندان اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہیں، جو جمہوری اقدار کے منافی ہے، ان سے نجات حاصل کئے بغیر ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ حقیقی جمہوریت وطن عزیز میں اس وقت ہی آئے گی جب ملک میں طلباء یونینز کو بحال کرنے کے ساتھ ٹریڈ یونینز کو بھی فعال کیا جائیگا، اب سندھ حکومت کی جانب سے طلباء یونینز کی بحالی کےلئے اقدامات کئے جارہے ہیں، جو مستحسن ہیں، اگر سندھ حکومت کی جانب سے طلباء یونینز کو بحال کر دیا گیا تو دوسرے صوبوں میں بھی طلباء یونینز بحال ہو سکتی ہیں، جس سے ملک میں نیا سیاسی کلچر پروان چڑھ سکتا ہے۔ اس لئے سندھ حکومت کے اربا حل وعقد کو چاہئے کہ طلباء یونینز کی بحالی کےلئے تیز تر اقدامات کریں، کیونکہ نہ صرف طلبہ برادری بلکہ جمہوریت پر یقین رکھنے والا ہر شہری طلباء یونینز کی بحالی کی خبر سننے کا متمنی ہے۔