تحرر: مقبول خان
روزنامہ امن کراچی کے چیف ایڈیٹر اور پبلشر اجمل دہلوی دنیائے صحافت کا ایک معتبر نام رہا ہے۔ انہیں ہم سے بچھڑے ہوئے ایک سال بیت گیا ہے۔ وہ شعبہ صحافت میں اکیڈمی کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کی سرپرستی میں کام کرنے اور ان سے سیکھنے والے ان گنت افراد آج مختلف اخبارات اور مختلف چینلز میں فرائض انجام دے رہے ہیں، ان میں سے بعض اعلیٰ منصب پر بھی فائز ہیں۔ اجمل صاحب صحافت کی تمام اصناف پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ وہ اپنے وقت کے بہترین نیوز ایڈیٹر، اداریہ نویس اور قبولیت عامہ کی سند رکھنے والے کالم نویس تھے۔ ان کو بلا ناغہ 12 گھنٹے کام کرنے کی عادت کے ساتھ پیشہ ورانہ مہارت، بے باکی، جمہوریت پسندی، محنت کشوں کی ترجمانی اور آزادی اظہار کے باعث روزنامہ امن کو ملک کے سب سے بڑ ے شہر کراچی کا دوسرا کثیر الاشاعت اخبار بنا دیا تھا۔ امن کی اشاعت ایک لاکھ سے متجاوز ہوئی، مگر مانگ اس قدر تھی کہ بعض اوقات بلیک میں بھی فروخت ہوتا تھا، روزنامہ امن کی اس مقبولیت میں ‘جمعہ خان’ کے کالم کا بہت بڑا حصہ تھا۔ اس کاالم کی ایک دنیا اسیر تھی۔ یہ جمعہ خان، اجمل دہلوی تھے۔
اجمل دہلوی نے قیام پاکستان سے ٹھیک بارہ سال قبل 14 اگست 1936کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر دہلی میں آنکھ کھولی، چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے والد سفر حج سے دو روز قبل گردے کی تکلیف سے راہی ملک عدم ہوگئے۔ اس وقت ان کی عمر سات برس تھی، ہندوستان کی تقسیم کے وقت اجمل صاحب آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے، وہ اپنے دادا بذریعہ ہوائی جہاز کراچی آئے۔ اجمل دہلوی کو لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ کراچی میں جب وہ میٹرک کے طالب علم تھے، بچوں کے رسالے ”کلیم” میں کہانیاں لکھنے لگے، کلیم کے مدیر ان کی کہانیوں اور انداز تحریر سے متار ہوئے ، لکھیں، تو متاثر ہو کر مدیر نے کلیم میں جز وقتی کام کرنے کی پیشکش کی، جسے انہوں نے قبول کرتے ہوئے روزانہ دو گھنٹے ‘کلیم’ میں کہانیوں کی نوک پلک سنوارنے کا کام شروع کردیا۔ اس وقت کے معروف روزنامے ‘انجام کے بچوں کے صفحے پر بچوں کی کہانیوں کے مقابلے میں اول انعام ملا۔ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے سٹی کالج سے گریجویشن کیا۔ 1956 میں پہلی ملازمت ‘مسلمان’ اخبار میں کی، پھر شام کے اخبار ‘نوروز سے وابستہ ہوگئے، اس کے بعد ‘انجام’ میں ‘سب ایڈیٹر’ رہے، پھر ‘جنگ کی ٹیم میں شامل ہو گئے، جہاں 1972 میں ہڑتال کی بنا پر برطرفیاں ہوئیں، تو ان میں ابراہیم جلیس کے علاوہ اجمل دہلوی ودیگر بھی شامل تھے۔ ملازمت سے برطرفی کے بعد کچھ وقت ‘جسارت میں کام کیا، پھر تمام برطرف ملازمین نے ‘امن’ اخبار نکالا، تو اجمل دہلوی اس کے ‘نیوز ایڈیٹر مقرر کئے، جبکہ افضل صدیقی مدیر، جن کے انتقال کے بعد اجمل دہلوی نے ان کی جگہ لی۔ افضل صدیقی کا بانی کے طور پر امن کی لوح پر ان کی آخری سانس تک چھپتا رہا۔
راقم روزنامہ امن سے دس برس سے زائد وابستہ رہا۔ روزنامہ امن سے وابستگی کے دوران پیشہ ورانہ صحافتی امور اور ذمہ داریوں کو نبھانے کے طریقہ کار کو جتنا موقعہ امن اخبار میں ملا اتنا کہیں نہیں ملا۔ میں یہاں اس امر کا برملا اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے محمود شام کے بعد اجمل دہلوی مرحوم سے صحافتی امور سیکھنے اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے پوری کرنے کا طریقہ اور سلیقہ سیکھنے کا موقعہ ملا۔ امن اخبار کی سر کولیشن میں اضافہ کی واحد وجہ یہ تھی کہ وہ اخبارات کی بقا اور ترقی کے لیے سچ اور غیر جانب داری کے ساتھ اہم خبروں، قومی اور علاقائی خبروں نمایاں طور پر شائع کرنے کی ہدایت اور مشورہ دیتے تھے۔
اجمل دہلوی خبروں کے انتخاب، اور ان کے ڈسپلے کے ساتھ ادارتی صفحات کو عوامی مزاج اور وقت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے ساتھ اخبارات اور اشتہارات کی مارکیٹنگ پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ اجمل دہلوی کا موقف تھا کہ کوئی بھی اخبار ایسا نہیں، جو اخراجات میں اضافے کے ڈر سے اپنی اشاعت بڑھنے سے روکے، اگر اخبار زیادہ چھپنے سے لاگت بڑھتی ہے، تو اشتہارات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اشتہاری ایجنسیاں چالاک ہیں، وہ اسٹالوں اور اخباری ایجنٹوں کے ذریعے اخبارات کی گردش یعنی تعداد اشاعت و فروخت پر بھی پر کڑی نظر رکھتی ہیں۔ کہا جاتا ہے روزنامہ امن پہلے پیپلز پارٹی کا بعد ازاں ایم کیو ایم کا ترجما ن بن گیا تھا۔ اس حوالے سے اجمل صاحب کہا کرتے تھے کہ ‘امن’ کبھی کسی جماعت کا ترجمان نہیں رہا، جو بھی بھی جماعت زیر عتاب آئی، ہم نے اس کا ساتھ دیا۔ پیپلز پارٹی کے مشکل وقت میں ہم اس کے ساتھ کھڑے تھے، جب ایم کیو ایم پر کڑا وقت آیا تو ہم نے ایم کیو ایم کا ساتھ دیا۔ ایک انٹرویو میں اجمل دہلوی نے ہونڈا ففٹی’ پر الطاف حسین کے ‘پریس ریلیز’ لانے کے زمانے کو بازیافت کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے شکایت کی کہ آپ ہماری خبریں نہیں لگاتے۔ اجمل دہلوی نے مذاقاً کہا کہ آپ کے والدین ہجرت کر کے آئے، آپ کہاں سے مہاجر ہوگئے۔ انہوں نے بڑی ضد کی، مگر خبر نہیں چھپی، پھر ایک آدھ، خبر لگانا شروع کی، جب انہیں مقبولیت ملی، تب زیادہ جگہ دینا شروع کی کہ یہ مہاجروں کی نمائندہ جماعت ہے اور کوئی اور انہیں اہمیت نہیں دے رہا۔ ‘امن’ کے بعد ہی دوسرے اخبارات نے انہیں اہمیت دینا شروع کی۔ اجمل دہلوی نے ایم کیو ایم بنانے کے لیے اہم مشیر ہونے کی تردید کی اور کہا سینٹیر بننے کے بعد ہی ان کا ایم کیو ایم میں کردار شروع ہوا۔ اس حوالے سے وہ دس، پندرہ بار لندن بھی گئے، کہتے ہیں الطاف حسین مخالفت برداشت نہیں کرتے، لیکن خامیاں بتائیں، تو قائل بھی ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے سخت معمولات کے باعث کبھی کالموں کو کتابی شکل دینے کا خیال نہیں آیا۔ سیاسی وسرکاری تقاریب کے بلاوے آتے ہیں، مگر شرکت میں دفتری مصروفیات آجاتی تھی ۔آج اجمل صاحب ہم میں نہیں لیکن طرز صحافت اصولوں کی پاسداری اور اپنے فرائض سے لگن صحافی برادری کے لئے مشعل راہ ہے۔ ہم مرحوم مغفرت اور ان کے درجات کی بلندی کے لئے دعا گو ہیں۔