فلم کی دنیا میں ایک زیادہ بڑے کچرے کا ڈھیر ‘عمرو عیار’

0
54

تحریر: حنیف چوہان

میں ان ناظرین کی ماﺅں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جنھوں نے ایسے عظیم عقل ور اور پیسے کو بے دریغ پانی کی طرح بہانے والے بچے پیدا کئے جنھوں نے ان پیسوں سے عمروعیار جیسی کچرا، بے تکی، بے سمت اور سمجھ میں نہ آنے والی فلم دیکھ کر پاکستان کی فلم انڈسٹری اور معیشت پر احسان عظیم کیا۔ ممکن ہے کہ ان کی اس بے حساب اور بے لوث قربانی کی وجہ سے پاکستان کے عوام کو جنت الفردوس کی آغوش میں پناہ مل جائے اور پاکستان کی معیشت تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دنیا کے ان چند ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل کرلی جائے جن سے قرضے مانگ مانگ کر پاکستان کے حکمرانوں نے اس ملک کی عوام کو ذلت کی پستیوں میں دھکیلا ہوا ہے۔

اور یہ سب ممکن ہوپائے گا اس عظیم تاریخی اور ناقابل فراموش فلم ‘عمرو عیا ر’ کی وجہ سے۔ یہ ایک توصیف تو ہے جسے ماننا پڑتا ہے۔

بین الااقوامی معیار: نوے کی دہائی میں نامعلوم سیارے سے نازل ہونے والے ٹرمنیٹر کو بتایا جاتا ہے کہ ایک بچہ دنیا میں ایسا ہے جو دنیا کو برباد ہونے سے بچا سکتا ہے لہٰذا ننگے پنگے ٹرمینیٹر کو یہ ٹاسک ملتا ہے کہ وہ جائے اور اس بچے کو ختم کردے۔ یہی کہانی پاکستانی عمرو عیار کی بھی ہے فرق بس اتنا ہے کہ یہاں ‘لگّا’ ہے جو جادوگروں کی جانے کونسی نگری سے آتا ہے اسے تلاش ہے عمرو عیار کی اس عمرو عیار کی جو لگا کی انتہائی تیز اسپیڈ کی وجہ سے چالیس برس کا ہوچکا ہے، یا دکھنے لگا ہے۔ اور لگّا اس تک پہنچ نہیں سکا۔
(اب ظاہر ہے ‘لگا’ کوئی ہالی وڈ کا ولن تو ہے نہیں اور وہ آیا بھی کسی ایسے سیارے سے ہے جہاں کمیونی کیشن کا نظام بہت ہی ماٹھا ہے۔ ورنہ بچپن میں عمرو کو آپکڑتا اور اس کا خون نکال کے پی جاتا۔ تاکہ ہمیشہ زندہ رہتا۔ اس کی سُستی اور کاہلی کی وجہ سے یہ ہونہیں سکا۔ عمرو عیار ایک لیکچرر بن چکا ہے۔ ‘لگا’ نے جو ٹیم عمرو عیار کو پکڑنے کے لئے چھوڑی ہوئی ہے وہ بھی اس تک اس لئے نہیں پہنچ پاتی کہ ساری ٹیم ہی لگّے کی طرح نکمّی ہے۔ جس میں اداکارہ ثنا بھی شامل ہے۔ لیکن عجوبہ یہ ہے کہ جب لگا کو عمرو عیار تک پہنچنا ہوتا ہے تو پلک جھپکتے میں پہنچ جاتا ہے۔ اس غیر عقلی حرکت پر ہنسئے مت ایسا مارول کی جاہلانہ فلموں میں بھی کہیں نہ کہیں دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ اسی لئے تو فلم کو بین الاقوامی معیار کی کہا جارہا ہے۔

بی بی سی جیسے ادارے نے اس فلم کی بڑھوتری میں کافی نمایا ں کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب بی بی سی کا ایسا بلند معیار تھا کہ لوگ اس پر بھروسا کرتے تھے۔ ممکن ہے اب بھی کرتے ہوں مگر اب بی بی سی کا معیار ہم سب کے سامنے ہے کہ وہ کن چیزوں کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ بین الاقوامی ہونے کی یہ بھی کچھ نہ کچھ دلیل تو ہے۔ (شکر ہے اس فلم میں عمرو عیار نے دنیا بچانے والا گھسا پٹا بکواس فلسفہ پیش نہیں کیا ورنہ کون یقین کرتا کہ یہ بندہ دنیا بچا سکتا ہے)۔!

کہانی تو بس یہی ہے ایک لائن کی۔ انٹرویل تک فلم اتنی رو رو کر اور دھیمے چلتی ہے کہ جو لوگ فلم چھوڑ کر بھاگ نہیں گئے ان کا ارادہ اس کے بعد مزیدار، اے سی کی ٹھنڈک میں ایک گھنٹہ سو کر پیسے کا کچھ نہ کچھ حصہ وصول کرنے کا تھا۔ کوئی مانے یانہ مانے یہ فلم کچھ حد تک بچوں کے لئے بنائی گئی ہے ورنہ اتنا بچپنا کیوں رکھا گیا ہے۔ جسے دیکھو خوامخواہ کے بھاشن پیل رہا ہے۔ خاص طور پر علی کاظمی( معاذ) جس کا کردار بہت دیر تک عثمان مختار ( عمرو عیار) سے زیادہ بڑا اور پاور فل نظر آتا رہا، جسے علی کاظمی نے اپنی زندگی کی سب سے خراب ایکٹنگ کے ساتھ ادا کیا ہے۔ (عثمان مختار کوعمرو عیار بنانے کی تُک نظر نہیں آئی۔ ویسے ان موصوف کا نام فلم میں پہلے ‘امر’ پکارا گیا ہے)۔

عیاروں کی کمزور ٹیم عمرو عیار میں پیدا ہونے والی غیر معمولی طاقتوں کی وجہ سے بہر حال ‘لگا’ کو مار بھگانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ اس آخری لڑائی کو دیکھ کر ساٹھ کی دہائی کی محمد علی اور سلونی کی ‘حاتم طائی’ یاد آگئی جس کی جادوئی لڑائی عمرو عیار سے بدرجہ بہتر تھی۔(فرحان طاہر جن کی موجودگی کی وجہ سے فلم ہالی وڈ کی کہلوانے میں مدد گار ثابت ہورہی ہے کیونکہ فرحان طاہر نے کئی ہالی وڈ کی فلموں میں نمایاں کیریکٹرز ادا کئے ہیں)۔

ہمارے لکھنے والوں کا پتا نہیں سارا زور اس بات پر کیوں ہوتا ہے کہ ہم بین الاقوامی معیار کی فلم بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ آگے بڑھتے ہیں۔۔ منظر صہبائی کو گرو بنایا گیا ہے اور اس گرو کو کسی معمولی چوہے سے بھی کم صلاحیت والا ایک لگا کا گُرگا صفحہ ہستی سے مٹا کر رفو چکر ہوجاتا ہے۔صنم سعید نے جب سے فلموں میں کام کرنا شروع کیا ہے تب سے وہ کہلانے تو لگی ہیں فلموں کی اداکارہ مگر انھیں دیکھ کر ہمیشہ لگتا ہے وہ ٹی وی کی اداکارہ رہتیں تو زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتیں۔ پھر بھی اس فلم میں اپنے پُھسپُھسے کردار میں وہ قابل قبول نظر آئیں۔ حمزہ عباسی کو مارکیٹ ویلیو بڑھانے کی حکمت عملی کے تحت ایک بہت ہی بور کردینے والے کردار میں جسے انھوں نے ابلیس کا کردار کہا۔ پیش کیا گیا ہے۔ فلم کا سب سے لمبا اور بکواس سین یہی تھا۔ علاوہ ازیں میں نے سنا ہے کہ فلم کو کئی ملکوں کی ٹیکنیکل ٹیم نے آکر ٹریننگ دی۔ (فلم دیکھ کر لگتا ہے ان بے چاروں کو اپنے ملکوں میں کام ہی نہیں ملتا ہوگا)۔ ایک اور اہم ترین بات فلم کو سائنس فکشن کہا جارہا ہے۔ ارے بھیا سیدھی سیدھی ایک جادوئی فلم ہے اور سائنس کا جادو سے کیا تعلق ہے؟ اس سے زیادہ سائنسی تو ہیری پورٹر تھی جسے جادوئی فلم کہا جاتا ہے۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟

فلم میں ناچ گانا جیسے ہے ہی نہیں اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ٹی وی کے اداکار ناچتے ہوئے مسخرے لگتے ہیں۔۔ ۔ کیونکہ کسی کو رقص نہیں آتا۔۔

انجام کار ‘لگّا’ کوزندہ واپس جانے کا موقع فراہم کرکے ناظرین کو یہ صدمہ انگیز خبر سنائی گئی ہے کہ اس فلم کا سیکیوئل بھی بنایا جائے گا۔ (میں ان ماﺅں کو ابھی سے پیشگی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جن کے بچے۔۔۔۔۔)

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں