اُمتی باعث رسوائی پیغمبر ہے

0
48

تحریر: شکیل راجپوت

‘مدین’ میں جو کچھ کیا گیا اسے کسی دلیل تاویل یا منطق سے کسی طور درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا، خود کو مسلمان قرار دینے والوں کے ہاتھوں مسلمان کا اس طرح وحشیانہ قتل تو زمانہ جاہلیت میں بھی نہیں ہوتا تھا۔ نہ ہی مسلمانوں نے دوران جہاد کبھی ایسا کیا۔ اب آئیے واقعے کیجانب۔

سیالکوٹ پنجاب سے آئے ہوئے سیاح سلیمان کو مدین سوات میں جس بےدردی سے بےقابو ہجوم نے زندہ جلا دیا وہ پاکستان کے ماتھے پر ایک اور سیاہ داغ کی صورت ثبت ہوچکا ہے۔ تحقیقات کے نتیجے میں جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ من و عن قارئین کے مطالعے کے لیئے پیش کیے جاتے ہیں۔

سلیمان نامی شخص بمعہ فیملی جس میں ان کی شریک حیات اور بچے شامل تھے گزشتہ کئی دنوں سے مدین کے اسی مقامی ہوٹل میں رہائش پزیر تھا جہاں اس کے خلاف یہ اندوہناک سازش تیار کی گئی۔ مقتول سلیمان ہوٹل کے ایک ویٹر سے عموما ہر موضوع پر بات چیت کرتا تھا اور اس بات چیت کے نتیجے میں مذکورہ ویٹر اس سے متنفر ہوچکا تھا۔ واقعہ والے دن ناشتہ دینے کے دوران سلیمان کی ویٹر سے قربانی کے موضوع پر مباحثہ ہوا تھا اور رائے دی تھی کہ ‘قربانی کے پیسوں کا صحیح مصرف یہی ہے کہ اسے اپنے بیوی بچوں کے فلاح و بہبود اور سیر و تفریح پر خرچ کیا جائے۔ مقتول سلیمان کا جرم بس اتنا ہی تھا جسے توہین اسلام بنا کر پیش کیا گیا۔ مقتول سلیمان کے یہ خیالات کیا توہین مذہب کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں یہ بحث ہم علماء کرام کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں اور کہانی کو آگے بیان کرتے ہیں۔ ویٹر اس نقطعہ نظر کو دل پر لے بیٹھا اور اپنے بعض دوستوں سے رابطہ کرکے انہیں سلیمان کے خلاف بھڑکا دیا اور یوں ان کی نظروں میں اسے توہین کا مجرم قرار دیتے ہوئے اس کے لرزہ خیز انجام کے لیئے منصوبہ بندی کی گئی۔ اس ضمن میں باقاعدہ طور پر قاتلوں اور ہجوم کو بھی تیار کیا گیا اور بعض مقامی مذہبی جنونیوں کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا۔ باقاعدہ طور پر مساجد اور بازاروں میں اعلانات کا بندوبست کیا گیا اور ایک نجی گاڑی پر بھی لائوڈ اسپیکر نصب کرکے اس سے مختلف بازاروں اور آبادیوں میں اعلانات کروائے گئے۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کے مطابق ایک منظم جتھے نے اسے ہوٹل کے کمرے سے مارنے کے لیے باہر نکالا لیکن بعض مقامی لوگوں نے پولیس کو بروقت مطلع کر دیا۔ پولیس اگرچہ سلیمان کو آپے سے باہر نکلے ہوئے جتھے سے چھڑا کر پولیس اسٹیشن مدین تو لے آئی لیکن ایس ایچ او حالات کے نزاکت کا اندازہ نہیں لگا سکا۔ ایس ایچ او نے نہ تو بروقت سینئر حکام کو حالات سے آگاہ کیا اور نہ ہی مناسب حفاظتی اقدامات اٹھا دیئے۔ ہجوم کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھنی شروع ہوئی اور ہجوم میں سے منصوبہ بندی کے تحت ایسی آوازیں اٹھنے لگیں جس نے ہجوم کو پولیس تھانہ پر چڑھائی کرنے پر آمادہ کیا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے بعد مقتول سلیمان کو بالآخر زبردستی مجمع تھانہ سے کھینچ کر بازار لے آیا۔ لوہے کے بڑے بڑے راڈز کے ذریعے اس کی ایک ایک ہڈی توڑ دی گئی، اسے برہنہ کرکے لہولہان حالت میں سڑک پر کھینچتے رہے اور بالآخر اس مقام پر لے جاکر زندہ جلا دیا گیا جہاں پر اس کے جلانے کے لیے پہلے سے لکڑیاں اکھٹی کی گئیں تھیں۔ ریکارڈ کی درستگی کے لیے یہ بھی بتاتا چلوں کہ مدین میں احتجاج اور مظاہروں کے لیے جو روائتی مقامات مختص ہے یہ جگہ بالکل نئی دریافت تھی جس جگہ پر سلیمان کو زندہ جلایا گیا۔ چند دن قبل اسی مدین کے اسی بازار میں اور انہی مقامات پر میونسپلٹی کے اہلکاروں نے ایک آوارہ کتے کو صفائی کرنے والی گاڑی سے باندھ کر سلیمان ہی کی طرح گھسیٹا تھا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی اور متعلقہ حکام نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے مذکورہ ٹی ایم اے ملازمین کو معطل کیا تھا۔ جب سلیمان کو مارا اور گھسیٹا جارہا تھا تب اس کی زوجہ اور بچیاں رو رو کر ہجوم کو اس کے مسلمان ہونے کا بتاتے رہے اور اس کی زندگی کے لیے بھیک مانگتے رہے۔ خود سلیمان بھی ہجوم کو بارہا اپنے مسلمان ہونے کا یقین دلاتا رہا لیکن کسی نے ایک بھی نہ سنی۔ سلیمان کی بیوی تب سے لیکر تادم تحریر بےہوش ہے جبکہ اس کی بچیاں گنگ ہو چکی ہیں۔ بعد ازاں ٹھنڈے دماغ کے ساتھ منصوبہ سازوں نے پولیس تھانے میں کھڑی اور جلی ہوئی گاڑی سے ایک سوختہ قرآن شریف نکالا جو گاڑی کا مالک تلاوت کے لیے گاڑی میں رکھتا تھا اور ہجوم کے ہاتھوں وہ گاڑی بھی تھانے میں کھڑی ہوئی نذر آتش ہوئی تھی۔ اسی شہید سوختہ قرآن پاک کے آدھ جلے ہوئے اوراق کو سلیمان کے خلاف بطور توہین قرآن پیش کر دیا گیا جس کا سلیمان کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا۔ تحقیقات کے نتیجے میں کوئی ایسے شواہد نہیں ملے کہ اس واقعہ کو ریاست کی سرپرستی حاصل تھی یا اسے کسی انٹیلیجنس ایجنسی نے ترتیب دیا تھا۔ نہ ہی کوئی ایسے ثبوت دستیاب ہوسکے جس کے نتیجے میں یہ باور کیا جائے کہ اس دلخراش سانحے کے پیچھے کسی مذہبی تنظیم کا کوئی ہاتھ تھا۔ یہ چند افراد کا ذاتی قبیح عمل اور مذہبی جنون تھا جنہوں نے اس سارے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جو اسی ہوٹل کے ایک ویٹر نے شروع کیا تھا جس ہوٹل میں سلیمان نامی مقتول بمعہ فیملی قیام پزیر تھا۔

اب زرا دیکھتے ہیں کہ اسلامی عظیم تر فرض عبادت ‘جہاد’ کے بنیادی اصولوں کیجانب کہ دوران جہاد بھی مسلمانوں پر چند بنیادی پابندیاں عائد ہیں کہ مسلمان دوران جہاد بھی ان دینی پابندیوں کی خلاف ورزی ہرگز ہرگز نہیں کرسکتے! اور جہاد کے میدانوں میں بھی ‘دوران جہاد مسلمانوں پر یہ پابندیاں لازم کی گئی ہیں کہ

لڑائی میں پہل مسلمان نہیں کرینگے،
دوران لڑائی اگر کوئی کافر زخمی ہو تو اسے قتل نہیں کرینگے،
جو قتل ہوچکے ہوں ان کی لاشوں کی بے حرمتی نہیں کرینگے،
عورتوں اور بچوں کو نہیں ماریں گے،
کوئی کافر میدان لڑائی سے واپس بھاگے تو تعاقب کرکے اسے قتل نہیں کرینگے،
جو کافر ہتیار پھینک دے اسے قتل نہیں کرینگے،
مسلمان دشمنوں کے کھیت یا زمینیں تباہ نہیں کرینگے،
غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو نقصان نہیں پہنچائیں گے،
دشمنوں کے مال مویشی ہلاک نہیں کرینگے،
فتح حاصل ہوجائے تو کسی کو زبردستی اسلام میں داخل نہیں کرینگے،
کسی غیر مسلم کو اس کی مذہبی رسومات کی ادائیگی سے نہیں روکیں گے،
لڑائی کے دوران اگر کوئی کافر امان میں آنا چاہے تو اسے نہیں ماریں گے، امان دینگے۔

اوپر بیان کردہ چند اصول جہاد کے بنیادی اصول ہیں، جن کی پابندی مسلمانوں پر لگائی گئی ہے۔مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کی ضرورت ہے، ہم ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں لیکن کیا ہم پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت کو معلوم ہے کہ سورہ فاتحہ میں کیا پڑھتے ہیں؟ عشاء کی نماز میں 3 رکعت وتر کے دوران ‘دعائے قنوت’ میں کیا عہد کرتے ہیں؟ کسی سے کبھی پوچھیے کہ رکوع سے اُٹھتے ہوئے جو کلمات زبان سے ادا کیے جاتے ہیں ان کے معنی کیا ہیں؟۔

باقی ‘مدین’ میں مسلمانوں کے ہاتھوں بے دردی سے قتل کیے جانے والے مقتول سلمان کا یہ کہنا بھی مکمل طور پر غلط و لادینیت ہے کہ ‘قربانی کے پیسوں کا صحیح مصرف یہی ہے کہ اسے اپنے بیوی بچوں کی فلاح و بہبود اور سیر و تفریح پر خرچ کیا جائے’۔

سیر و تفریح بھی دینی لحاظ سے اسراف کے زمرے میں آتا ہے اور اسے قربانی پر ترجیح دیکر فیملی کے فضول خرچ سے تقابلی طور پر پیش کردینا بھی جہالت سے زیادہ کچھ نہیں۔ قربانی سنت ابراہیمی بھی ہے اور سنت رسول کریم ﷺ بھی، علاوہ ازیں یہ مالی عبادت ہے جس کے بہترین اغراض و مقاصد ہیں لیکن یہ لازم ہرگز نہیں، صرف انہوں نے قربانی کرنی ہے جو حلال رقم کے لحاظ سے قربانی کی حیثیت رکھتے ہوں۔

اسلام امن کا دین ہے، اور یہ مسلمان نے ثابت کرنا ہے لیکن بدقسمتی یا منظم منصوبہ بندی کے تحت مسلمان خود اسے بدنام کرنے میں مصروف ہیں جسکی حالیہ مثال واقعہ مدین ہے۔

بقول اقبال
قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں،
کچھ  بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں۔

نوٹ: یاد رہے کہ کئی ماہ قبل خود سیالکوٹ میں ایک سری لنکن فیکٹری مینیجر کو اسی طرح توہین مذہب کا الزام لگا کر سرعام جلایا اور قتل کردیا گیا تھا اور اس واقعے سے پوری دنیا میں وطن عزیز پاکستان کو بدنام کیا گیا تھا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں