حیدرآباد کا سلیم جہانگیر دیانتدار صحافی میرے لیے سندھی تازہ مطبوعات بھی لے کر آیا کرتے تھے۔

0
39

تحریر: ڈاکٹر رانا خالد محمود قیصر

سلیم جہانگیر کا تعلق حیدرآباد سندھ سے تھا وہ ایک محنتی صحافی تھے اور ایک محبت کرنے والے دوست تھے میری ان سے پہلی ملاقات نیو چالی برانچ میں ہوئی تھی۔ جہاں وہ ایک چیک کیش کروانے آئے تھے برانچ میں بہت رش تھا اور ان کو کچھ جلدی تھی وہ میرے پاس آئے اور اپنا تعارف کرایا جدید بینکاری کا مدیر ہوں اور حیدرآباد سے آیا ہوں کچھ جلدی ہے اگر مناسب سمجھیں تو میرا چیک جلدی کیش کروا دیں۔ یہ سلیم جہانگیر بھائی سے میری پہلی ملاقات تھی بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مجاہد بریلوی کی ادارت میں جدید بینکاری میگزین نکالتے ہیں۔ یہ مختصر سا تعارف انہیں قریب لے آیا۔ اس دن کے بعد جب یہ تعارف ہوا کہ میرا تعلق بھی اندرون سندھ پڈعیدن سے ہے تو وہ میرے پاس گاہے بگاہ تشریف لاتے تھے بغیر کسی بینک کے کام کے بھی وہ ملاقات کو آیا کرتے تھے یہ ان کی بڑی ایک محبت بھری ادا تھی کہ وہ بغیر کسی کام کے بھی تشریف لایا کرتے تھے اور گفت و شنید رہتی مختلف موضوعات پر۔ اس کے بعد گاہ بگاہے ملاقات ہوتی رہیں جدید بینکاری میں میری چند ایک غزلیں بھی چھپی ایک دن سلیم جہانگیر بھائی نے کہا کہ آپ غزل تو عنایت کرتے ہی رہتے ہیں لیکن آج مجھے نثر کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مجھے ایک موضوع دیا میں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ایک دو صفحے کا مضمون انہیں اسی وقت لکھ کر دے دیا۔ وہ بہت خوش ہوئے کہ آپ کا تو قلم رواں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کو گاہ بگاہے نثر کے لیے تکلیف دیتا رہوں گا۔ اسی زمانے میں انہوں نے میری ملاقات مجاہد بریلوی صاحب سے بھی کروائی جو کہ جدید بینکاری کے مدیر اعلی تھے۔ میں چونکہ بینک میں ایک مصروف زندگی گزار رہا تھا لیکن سلیم بھائی کی شخصیت ایسی تھی کہ میں ان کے لیے ٹائم نکالتا تھا دوران گفتگو چائے کا دور بھی چلتا رہتا تھا اور ادبی گفتگو بھی اور بینکاری کے مسائل بھی۔ سلیم جہانگیر بھائی کا تعلق چونکہ حیدرآباد سے تھا لہذا وہ میرے ادبی ذوق کو دیکھ کر میرے لیے سندھی تازہ مطبوعات بھی لے کر آیا کرتے تھے۔ ان کے ہمراہ ایک دو مرتبہ رشید بٹ صاحب کے دفتر میں بھی ملاقات ہوئی اور وہاں رشید بٹ صاحب سے جو ادبی گفتگو ہوتی تھی وہ میرے لیے ایک سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

اخباری دنیا چونکہ زبوں حالی کا شکار تھی لہذا جدید بینکاری بھی بجائے ماہوار شائع ہونے کے دو مہینوں میں شائع ہونے لگا اس کی سب سے بڑی وجہ خریداروں کی کمی اور کاغذ کی مہنگائی تھی۔ دوسری سب سے بڑی اور اہم وجہ یہ تھی کہ بینکوں نے اشتہار دینا کم کر دیے تھے۔ کیونکہ میگزین کی جو اہم آمدنی تھی وہ بینکوں کے اشتہار ہی تھے۔ میری نیو چالی برانچ سے ٹرانسفر ہو گئی اور یوں سلیم جہانگیر سے ملاقات فون کے ذریعے ہوتی رہی اور اس میں کچھ تعطل اور وقفہ بھی آتا چلا گیا۔ لیکن سلیم جہانگیر سے رابطہ بہرحال کسی نہ کسی صورت رہتا تھا کبھی کسی ادبی تقریب میں پریس کلب میں کبھی آرٹس کونسل میں یا کبھی میرے دفتر میں۔ سلیم جہانگیر اج اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کی یادیں ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ ان کی محبت اور فیاضی کا ثبوت ہے کہ ہم آج ان کو یاد کیے ہوئے ہیں۔ جدید بینکاری کے علاوہ بھی وہ مختلف اخبارات ہفتے وار جرائد میں مضامین لکھتے تھے تمام مضامین کا جو محور تھا وہ بینک اور بینک کی پالیسیز اور دیگر عوامل ہوا کرتے تھے۔ میری بھی مصروفیت بڑھتی گئی اور اور فون پر بھی ملاقات میں تعطل آتا گیا پھر مجھے اطلاع ملی کہ سلیم جہانگیر کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی اکثر ان کو شوگر کا عارضہ رہتا تھا بلڈ پریشر کا بھی عارضہ تھا ان سے کچھ ملاقاتیں کم ہوتی گئی۔ پھر پتہ چلا کہ ان کے طبیعت کچھ زیادہ خراب ہے تو میں پڈعیدن جاتے ہوئے حیدرآباد سے ہوتا گیا وہ واقعی بہت کمزور نظر آرہے تھے۔ دن رات یوں ہی گزرتے رہے جدید بینکاری بھی تعطل کا شکار ہوگئی اور میری ملاقاتیں بھی ان سے کم ہوتی چلی گئی پھر ایک دن پتہ چلا کہ ان کی طبیعت بہت شدید خراب ہے اور وہ کراچی کے مقامی ہسپتال میں داخل ہیں۔ میں ایک دوست کے ہمراہ ان کی عیادت کو گیا مسکرائے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن نقاہت طاری تھی بہرحال ہم اس ملاقات کے بعد افسردہ افسردہ لوٹے۔ ایک دن اچانک اطلاع ملی کہ سلیم جہانگیر اب اس دنیا میں نہیں رہے انا للہ الیہ راجعون۔

بلا شبہ سلیم جہانگیر ایک دیانتدار صحافی تھے انہوں نے ہمیشہ جدید بینکاری کو جدید خطوط پر استوار کیا اور اکثر لوگوں سے ملاقات میں وہ صرف اور صرف نثر یا نظم کی فرمائش کرتے رہتے تھے، میگزین کو احسن انداز میں چلایا مجاہد بریلوی صاحب کی سرپرستی میں انہوں نے اس میگزین کا سفر جاری رکھا تھا نامساعد حالات پر وہ میگزین ان کو بند کرنا پڑا۔ آج گو کہ سلیم جہانگیر اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کی یادیں ان کی باتیں ہمارے ساتھ ہیں رب کائنات سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کو جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں