تحریر: مقبول خان
محمود آباد پس منظر
محمودآباد کراچی کا ایک قدیم رہائشی علاقہ ہے۔ اس کی آباد کاری کا آغاز 1953 میں ہوا تھا۔ یہ پی ای سی ایچ ایس بلاک 6 اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے درمیان واقع ہے۔ اس کے ساتھ ہی ملحقہ رہائشی بستیاں لیاقت اشرف کالونی اورعلامہ اقبال کالونی بھی اس کے ساتھ ہی آباد ہونا شروع ہوئی تھی، ملحقہ آبادی اعظم بستی چند برسوں کے بعد آباد ہونا شروع ہوئی تھی۔ اعظم بستی پہلے بنگالی پاڑہ کے نام سے مشہور تھی۔ بعد ازاں عیسائی محنت کش بھی یہاں آباد ہو گئے۔ جبکہ بنگالی 1972 میں یہاں سے نقل مکانی کرگئے۔ جبکہ چنیسر گوٹھ ڈھائی سو سالہ قدیم بتایا جاتا ہے۔ محمودآباد کو بسانے میں شیخ عبدالغنی کا نام بانی محمودآباد کے طور پر لیا جاتا ہے۔
محمودآباد منی پاکستان
محمودآباد کے منی پاکستان ہونے کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ یہاں پاکستان کی تمام قومیتوں کے لوگ آباد ہیں، یہاں مہاجروں سمیت پنجابی، ہزارہ وال، سندھی، مکرانی، پٹھان، سرائیکی اور بلوچی معقول تعداد میں آباد ہیں، محمودآباد اور اس کی ملحقہ آبادیوں میں سندھی، مہاجر، پنجابی، اور پختوں آبادیوں کے پیکٹس موجود ہیں۔ ہل ایریا میں ہزارہ وال اکثریت میں ہیں، چنیسر گوٹھ میں سندھی، علامہ اقبال کالونی میں پنجابی جبکہ محمودآباد کے مرکزی علاقے میں مہاجروں کی اکثریت ہے۔ یہاں ان تمام قومیتوں کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔ یہاں نسلی و لسانی کشیدگی کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ اسی طرح مذہبی حوالے سے سے یہاں بریلوی مکتبہ فکر کی مساجد کی تعداد زیادہ ہے، جبکہ یہاں دیوبندی اوراہلحدیث کی مساجد بھی ہیں۔ اس کے ساتھ یہاں شیعہ فرقے کے مسلمان بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں، یہاں تین یا چار امام بارگاہیں ہیں۔ محمودآباد میں بارہ ربیع الاول کا چراغاں اور جلوس دیدنی ہوتا ہے، اسی طرح یہاں ماہ محرم اور ماہ صفر میں میں مجالس عزا اور جلوس بھی بر آمد ہوتے ہیں، لیکن یہاں کبھی مذہبی بنیادوں پر کشیدگی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔
محمود آباد انتخابی عمل
محمودآباد اور ملحقہ بستیوں کا سیاسی منظر نامہ انتہائی دلچسپ اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ 1958 میں ہونے والے کی تاریخ کے بلدیاتی الیکشن میں محمودآباد اور ملحقہ بستیوں سے تین کونسلر منتخب ہونا تھے۔ ان انتخابات میں جماعت اسلامی کے شہزاد محمد، چوہدری نیک محمد اوربشیر احمد مغل منتخب ہوئے تھے۔ ان کے مقابلے میں غازی انعام نبی پردیسی، عبدالواحد قریشی، ناظر سید، عوامی لیگ کے اخترعلی خان، عتیق برنی اور عباس سیٹھ امیدوار تھے۔ یہاں یہ امر قابل زکر ہوگا کہ اس بلدیاتی ایوان میں کونسلروں کی مجموعی تعداد 57 تھی۔ سابق صدر جنرل محمد ایوب خان نے بنیادی جمہوریت جسے عرف عام میں بی ڈی نظام کہا جاتا ہے۔ اس نظام کے تحت پاکستان میں دو مرتبہ انتخابات ہوئے تھے۔ ہم 1960 اور1964 میں ہونے والے انتخابات میں محمودآباد سے منتخب ہونے والے کونسلرز (بی ڈی ممبرز) اور چیئرمین کا تذکرہ کریں گے۔ 1960 کے بی ڈی الیکشن میں راؤ مہدی حسن چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔ جبکہ منتخب ہونے والے بی ڈی ممبرز میں شیخ عبدا لغنی اور راجہ رب نواز منتخب ہوئے تھے۔ 1964 کے انتخابات میں محمودآباد سے شیخ عبدالغنی، جماعت اسلامی کے محمد اسلم، اشرف لیاقت کالونی سے شیخ یعقوب، جبکہ چنیسر گوٹھ سے محمد پریل اور محمد صفر بی ڈی ممبر منتخب ہوئے تھے۔ ان انتخابات مین چیئرمین عمر خان منتخب ہوئے تھے۔ یہاں یہ امر قابل زکر ہوگا کہ اس وقت جس عمارت میں محمودآباد تھانہ قائم ہے، یہ عمارت چیئرمین عمر خان کے دور میں تعمیر کرائی گئی تھی۔ اور اس میں لائبریری قائم کی گئی تھی۔ اس وقت محمودآباد عائشہ باوانی اسکول کے سامنے واقع صدر تھانے کی حدود میں شامل تھا۔ ہم جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں کرائے جانے والے غیر جماعتی انتخابات کا تذکرہ کریں گے۔ ان انتخابات میں عبدالخالق اللہ والا یہاں سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ جبکہ ان کے مد مقابل اختر پگانوالہ تھے۔ صوبائی اسمبلی کے امیدواروں میں چوہدری عبدالمجید، جنید فاروقی (جنہیں جماعت اسلامی اور بانی محمود آباد ایس اے غنی کی حمایت حاصل تھی) جبکہ چنیسر گوٹھ کے عباس سیٹھ امیدوار تھے۔ جنید فاروقی کو سخت مقابلے کے بعد صرف 67 ووٹ سے شکست ہوئی تھی۔ اور چوہدری عبدالمجید رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ انہیں چنیسر گوٹھ سے ٹریڈ یونین لیڈرعثمان غنی کی حمایت حاصل تھی۔ چوہدری مجید بعد ازاں سندھ کے وزیر اعلیٰ سید غوث علی شاہ کی کابینہ میں وزیر خوراک بھی مقرر کئے گئے تھے۔ صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہونے والے تین مرتبہ بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے گئے تھے۔ جنرل ضیاء کے دور میں تین مرتبہ بلدیاتی انتخابات منعقد کئے گئے تھے۔ 1979 میں پہلے بلدیاتی انتخابات میں محمود آباد سے چوہدی عبدالمجید کونسلر منتخب ہوئے تھے۔ ان کے قریب ترین حریف حنیف قریشی تھے۔ جبکہ ان انتخابات میں سابق بی ڈی چیئرمین عمر خان اور بانی محمود آباد ایس اے غنی کے نامزد امیدوار مقبول احمد بھی تھے۔ ان بلدیاتی انتخابات میں چنیسر گوٹھ اور اس سے ملحقہ علاقے ہل ایریا سے فقیر محمد کونسلر منتخب ہوئے تھے۔ 1983 کے دوسرے بلر دوسرے بلدیاتی انتخابات میں محمودآباد سے شیخ عبدالغنی بھاری اکثریت سے کونسلر منتخب ہوئے تھے۔ ان کے مقابلے پر چوہدری عبدالمجید کو شکست ہوئی تھی۔ ان بلدیاتی انتخابات میں محمود آباد کو ملک بھر میں یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہوا تھا کہ اس بلدیاتی انتخابی حلقے میں تین کونسلر منتخب ہوئے تھے۔ چوہدری عبدالمجید محنت کشوں کی خصوصی نشست اور سعیدہ بانوخواتین کی خصوصی نشست پر کونسلر منتخب ہوئے تھے۔ جبکہ چنیسر گوٹھ سے ناتھا خان کونسلر منتخب ہوئے تھے۔ 1987 میں جنرل ضیاء کے دور میں تیسرے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کے حق پرست امیدوار خلیل الدین ایڈوکیٹ پی پی آئی کے امیدوار کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے کونسلر منتخب ہوئے تھے۔
محمود آباد کی مساجد
محمودآباد گیٹ پر واقع عالیشان تاج مسجد 1954 بانسوں اور چٹائی سے بنائی گئی تھی، محمودآباد اور اس کے اطراف میں پچاس کی دھائی میں تاج مسجد کے علاوہ چنیسر گوٹھ کی رحمانیہ مسجد، پارسی گیٹ پر باب رحمت مسجد اور محمودآباد نمبر چار پر حنفیہ مسجد تھی۔ ساٹھ کی دہائی میں یہاں علامہ اقبال مسجد، حقانی مسجد اور پانچ نمبر محمودآباد میں فردوس مسجد قائم کی گئی تھی، تاج مسجد میں رمضان المبارک کی طاق راتوں میں شبینہ کی روایت مسجد انتظامیہ کے پہلے صدر حافظ افضل حسین نے ڈالی تھی، جو،اب تک بر قرار ہے۔ محمودآباد نمبر پانچ میں فردوس مسجد بھی کافی پرانی مسجد ہے۔ جبکہ ایک نمبر پر مسجد رحمت اللعالمین کم و بیش ایک عشرے قبل قائم کی گئی تھی۔ جبکہ محمودآباد میں دو امام بارگاہیں بھی قدیم ہیں۔ پچاس کی دہائی میں محمودآباد تا صدر گجرات بس سروس کی بس نمبر 21 چلا کرتی تھی، جس کے مالکان منظور پگاں والا اوراختر پگاں والا دو بھائی تھے۔ جنہوں نے بعد ازاں منظور کالونی اوراختر کالونی کے قیام پر میں اپنا کردارادا کیا۔ (جاری ہے)