ایک ارب ساٹھ کروڑ

0
224

تحریر: محمد شعیب یار خان

ہم کمال ڈرامے باز ہیں بہت بڑے اداکار ہیں ہم بے حس ہیں بے ضمیر ہیں ہم طاقتور کے آگے مظلوم اور بے سہارا کے لئے ظالم ہیں بحیثیت مجموعی ہمارا وجود نہ ہونے کے برابر کی حیثیت رکھتا ہے، ہم دنیا میں دیڑھ ارب یا اس سے زائد ہیں مگر بے شرم ہیں ہمارے پاس وسائل کے انبار ہیں دولت کے ڈھیر ہیں سہولتوں کی فراوانی ہے انسانوں کے انبار ہیں پانیوں کے سمندر سے خوراک کے ذخائر تک کے مالک ہیں ان سب کے باوجود بھی اپنے بہن بھائیوں کی مدد نہیں قرض دیتے ہیں، مدد کے لئے آفتوں زلزلوں سیلابوں کے منتظر رہتے ہیں ایسا نہیں کہ ہمیں معلوم نہ ہو کہ ہمارا دشمن کون ہے ہم اچھے سے جانتے ہیں مگر پھر بھی اس سے یاری کے لئے اپنا سب کچھ لٹانے کو بےتاب ہیں۔ ہم کہنے کو دیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کا تقسیم شدہ ہجوم ہیں ہمارا رب ایک ہمارا نبی ایک ہماری کتاب ایک ہمارا مقصد اور منزل ایک لیکن پھر بھی ہماری سوچ ایک دوسرے سے مختلف ،ہمارے دوست دشمن جدا، کہیں ہم آپس میں ایک دوسرے کےدشمن تو کہیں اپنے مسلمان بھائیوں کے دشمنوں کے دوست ہیں۔اصل میں ہم مجموعی طور پر بے شرم بھی ہیں ہمارا اجتماعی ہتھیار دشمن کے لئے سخت بددعائیں اور اپنوں کے لئے احتجاج سڑکیں بلاک توڑ پھوڑ املاک کو نقصان پہنچانا ہے۔ فلسطین میں مسجد اقصیٰ کو قبلہ اول ماننے والے کمزور، بزدل، ڈرپوک دیڑھ ارب مسلمان اب فقط اپنے ہی ملکوں میں سڑکیں بلاک کرکے احتجاج تک محدود دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجارہے ہیں ہمارا مشترکہ دشمن تعداد میں دس فیصد بھی نہیں مگر انتہائی عیار، متحد عقل و دانش، ٹیکنولوجی شعور چالاکی، پلاننگ، ٹریننگ ہرشعبے پر مہارت رکھتا ہے ہم اس کے مقابلے کے لئے مصلے پر ابابیلوں کے منتظر بے شرموں کی طرح بددعاوں کے سہارے پڑے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی کمظرف ہمارے رب کو کوئی کچھ بھی کہ دے ہم خاموش، کوئی بھی بدنسل ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کرے ہم مصلحت پسند، کوئی گھٹیا بدکردار شخص ہمارے قران کی بے حرمتی کرے تو بھی ہم دو دن کے سوگ تک محدود رہنے والے ابابیلوں کے نہیں ایسے ہی سزاوں کے مستحق ہیں۔

فلسطینی مائیں بہنیں معصوم بچے ابھی بھی اس آس میں ہیں اس وقت کے مسلمانوں کی غیرت جاگے گی ان مسلمانوں کی جو دشمنوں کی ان مصنوعات جن سے وہ مسلمانوں کے خلاف ہی ہتھیار اور جنگی سازوسامان خریدتے ہیں ان کا بائیکاٹ تک کرنے کی ہمت نہیں کرسکتے فلسطینی کشمیری، شامی اور دیگر مظلوم اب بھی ان مسلمانوں کے منتظر ہیں جو تعداد اور وسائل کی فراوانی کے باوجود مظلوم کی مدد کے وقت اسی کشمکش میں رہتے ہیں کہ غلطی پر کون ہے کہیں ہمارے تعلقات غیر مسلموں سے بگڑ تو نہیں جائیں گے کہیں ہمارے اقتدار تو چھن نہیں جائیں گے کہیں یہ ہم پر ہی حملہ آوار تو نہیں ہوجائیں گے ہم سوئی سے جہاز تک دشمنوں کے ہی محتاج ہیں۔ ہم آپس میں اتنے غیر محفوظ ہیں دشمنوں کو اس کی بخوبی خبر ہے اسی لئےوہ جب چاہے ہمارا قتل عام کرتے ہیں ہمیں رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، ہمیں دہشت گرد شدت پسندی کے طعنے دیکر ہمارے نومولود بچوں سے نوجوانوں تک کو حاملہ عورتوں سے لیکر بزرگوں تک کو قتل کرنے میں سیکنڈ نہیں لگاتا، جنگوں میں بچوں بوڑھوں عورتوں اسپتالوں کو نشانہ بنانا عالمی قوانین کے مطابق غیر انسانی غیر قانونی قرار دیا گیا ہے مگر مسلمانوں کو دہشت گرد کہنے والے، معصوم بچوں عورتوں بزرگوں کو قتل کرنا، اسپتالوں میں زخمیوں تک کو نہ بخشنا اپنا حق سمجھتے ہیں ہر قانون، انسانیت ان کے جوتے کی نوک پر ہے، ہم پھر بھی ان کی دوستی اور رغبت کے لئے آپس میں لڑنے مرنے کو تیار۔ جب ہی ہم پر جنگ نہیں ہوتی تو اللہ کی مار سیلابوں زلزلوں قدرتی آفات ظالم حکمرانوں کی صورت میں نازل ہوتی ہے ہم پھر بھی سبق نہیں لیتے اپنی مستی میں مگن رہتے ہیں اپنے انجام سے بے خبر ہمیں فکر ہی نہیں کہ کب ہماری باری آئے تب ہوش میں آنے کا وقت بھی شاید نہ ملے مرنا سب نے ہے، اپنے وقت پر مرنا ہے لیکن کون غیرت سے مرے گا اور کون خوش فہمی کی موت گلے لگائے گا وہ وقت دور نہیں جلد ہی سب سامنے آنے والا ہے۔ اگر ابھی بھی پوری امت متحد نہ ہوئی اپنے آپسی سطحی چھوٹے بڑے اختلافات کو بالائے طاق نہ رکھا دشمن کو کھلا پیغام نہ دیا اس کو منہ توڑ جواب دینے لئے یکجا نہ ہوئے، ایک دوسرے کو ایک جسم کے مانند نہ سمجھا امتی ہیں امتی بن کر نہ دکھایا تو اگلا غزہ، کشمیر، شام ہم میں سے کون ہوگا اس کا انتظار کریں جلد باری آنے کو ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں