تحریر: فہیم صدیقی
دسمبر بھی عجیب ہی مہینہ ہے نجانے کیوں مجھے اب اس کا آنا اچھا نہیں لگتا یہ آتا ہے تو میں خود سے بھی چھپنا شروع کردیتا ہوں۔ ایک عیجب سی تلخی میرے اندر بھر جاتی ہے اور ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے اداسی کے گہرے سیاہ بادلوں نے مجھے چاروں جانب سے گھیر لیا ہو، جیسے جیسے یہ دسمبر آگے بڑھتا ہے یہ سیاہ بادل مزید گہرے ہونے لگتے ہیں۔ کل رات بھی اسی عالم میں تھا نیند کی دیوی ایک بار پھر روٹھی ہوئی تھی بار بار فون اٹھاتا تھا اور رکھ دیتا تھا اندر کہیں شدت سے کسی کمی کا بھی احساس تھا اس بار فون اٹھایا تو سامنے ہی ایک نوٹیفکیشن جگمگا رہا تھا۔ یہ ایک نئی ایپ تھی جسٹ ٹالک کڈ جو میں نے اپنے بچوں سے بات کرنے کے لیے ان کے ٹیب اور اپنے موبائل فون میں ڈاون لوڈ کی تھی بچے تو سو چکے تھے پھر یہ نوٹیفکیشن کس کا ہے۔ یہی سوچتے ہوئے میں نے اس پر کلک کیا تو سامنے ایک ونڈو کھل گئی جس پر سب سے اوپر اے بی ایس لکھا ہوا تھا یہ ایک گروپ ونڈو تھی اور اے بی ایس کا مطلب تھا انزلنا باذل شہید۔
گروپ میں ایک لمبا چوڑا میسیج موجود تھا جو باذل صدیقی شہید نے جنت سے بھیجا تھا
لکھا تھا بابا جانی ‘جانتا ہوں آپ آج کل بہت اداس ہیں کیونکہ اسی مہینے کی 28 تاریخ کو میں اور انزلنا آپی آپ سب سے جدا ہوگئے تھے، آپ ہمیں اور ہم آپ سب کو بہت مس کرتے ہیں کل سے انزلنا آپی بھی کافی کھوئی کھوئی سی ہیں، میں کوشش تو کررہا ہوں کہ وہ نارمل ہوجائیں لیکن مجھے لگ رہا ہے اس میں وقت لگے گا۔ میں نے یہ گروپ بھی یہی سوچ کر بنایا اور اس میں آپ کو ایڈ کیا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں گے تو شاید اداسی کے اس ماحول سے نکلنے میں کچھ مدد ملے گی۔ بابا جانی بات صرف انزلنا آپی کی نہیں جو کچھ کھوئی کھوئی سی ہیں بلکہ آج یہاں جنت میں ہمارا پورا گروپ ہی کچھ اداس چل رہا ہے۔ ہمارا یہ گروپ شہدائے جنت کہلاتا ہے ویسے تو یہاں اور بھی بہت سے شہید ہیں لیکن ہمارے گروپ میں پاکستان میں شہید ہونے والے صرف وہ بچے شامل ہیں جو دہشت گردی میں مارے گئے۔ اریبہ آپی بھی ہمارے ہی گروپ میں ہیں جو 20 جنوری 2019 کو ساہیوال میں ریاستی دہشت گردی کا شکار ہو کر اپنے امی ابو کے ساتھ یہاں پہنچی تھیں، ان کا بیٹا جو میرا ہم عمر ہے وہ سی ٹی ڈی کی گولیوں سے بچ کر دنیا میں ہی ہے، بیچارہ پتہ نہیں کس حال میں ہوگا، اریبہ آپی، انزلنا آپی کی بیسٹ فرینڈ ہیں کیونکہ ان دونوں کی عمر بھی ایک ہی ہے ہمارے گروپ میں 144 بچے تو وہی ہیں جو آج ہی کے دن یعنی 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہوکر یہاں پہنچے تھے۔ انہی میں سے ایک خولہ بھی ہے میری بہت اچھی دوست، وہ بھی میری طرح 6 سال کی ہی تھی جب جنت میں آئی تھی۔ بیچاری کا اے پی ایس میں میں پہلا دن تھا اور وہی آخری ثابت ہوا خولہ کو بھی میری طرح پڑھنے کا بہت شوق تھا، اپنے کلاس فیلوز کی مدد کرنا اپنے سے چھوٹے بچوں کو پڑھانا، اس کا محبوب مشغلہ تھا مجھے یقین ہے کہ اگر وہ دنیا میں رہ جاتی تو آپ کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی کہ “ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے” کل مجھے بتارہی تھی کہ اس نے اپنے پڑوس میں ایک انکل کو اس بات پر راضی کیا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو پڑھنے کے لیے اسکول بھیجیں’۔
بابا جانی ‘کل ہم سب بیٹھ کر بات کررہے تھے کہ اچانک اجون خان انکل اور شہانہ آنٹی کے بیٹے اسفند خان شہید بھائی نے ایک ایسی بات کی کہ مجھے لگا کہ آپ اس میں ہماری مدد کرسکتے ہیں۔ فضل انکل کے بیٹے صاحبزادہ عمر شہید نے بھی ان کی تائید کی وہ کہہ رہے تھے کہ انہیں یہاں آنے والے کسی شخص سے پتہ چلا تھا کہ آرمی پبلک اسکول پر ہوئے حملے کی ذمے داری قبول کرنے والے احسان اللہ احسان کسی کا احسان لے کر جنوری 2020 میں سیکیورٹی فورسز کی تحویل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ان کی والدہ نے اور کئی دوسرے شہید بچوں کے والدین نے سپریم کورٹ میں اور صاحبزادہ عمر شہید بھائی کے والد فضل انکل نے پشاور ہائیکورٹ میں اس پرکوئی درخواست دائر کی تھی جس پر نوٹسز بھی ہوئے تھے، لیکن اس پر مزید کیا ہوا اس کا کسی کو نہیں پتہ کیا آپ اس بارے میں کچھ پتہ کرسکتے ہیں’۔؟
میں رات کے اس پہر باذل صدیقی شہید کے اس میسیج کا کوئی جواب نہیں دے سکتا تھا اور دیتا بھی کیسے پاکستان میں نظام انصاف کے مارے لوگوں کا رونا ہی یہی تھا کہ انصاف ان کے لیے دور آسمان پر چمکتا چاند ہے اور پھر مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں وہ آگے سے یہ بھی نہ پوچھ لے کہ بابا جانی 28 دسمبر 2009 کو کراچی میں دس محرم کے جلوس میں دہشت گردی کرکے مجھے اور انزلنا آپی سمیت 48 افراد کو یہاں بھیجنے کے ذمے دار بھی تو گرفتاری کے بعد سٹی کورٹ سے فرار ہوگئے تھے ان کا کیا ہوا؟ تو میرے پاس تو اس کا بھی کوئی جواب نہیں تھا اس لیے میں نے اسے صرف اتنا لکھا بیٹا جانی میں آپ کو کل جواب دے سکوں گا۔
آج آفس آنے کے بعد میں نے اسفند خان شہید کے والد اجون خان کو موبائل پر کال کی تو ابھی کال اٹینڈ بھی نہیں ہوئی تھی کہ ان کا دکھ مجھ تک پہنچ چکا تھا ان کے فون پر رنگ ٹون ہی “میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے” لگی ہوئی تھی، تھوڑی سی دیر میں ہی کال اٹینڈ ہوگئی اور اجون خان نے کال اٹینڈ کرتے ہی اپنا تعارف شہدا اے پی ایس فورم کے صدر کی حیثیت سے کرایا عام طور پر لوگ کال اٹینڈ کرتے ہی ہیلو کے جواب میں اس طرح اپنا مکمل تعارف نہیں کراتے اجون خان کا یہ انداز بھی اس بات کی گواہی تھا کہ اب ان کا اوڑھنا بچھونا ان کے بیٹے سمیت 144 طلبہ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہے اور وہ اپنی زندگی اب اسی مدار میں گزار رہے ہیں جواب میں، میں بھی اپنا یہ تعارف کرائے بغیر نہ رہ سکا کہ آپ کی طرح میں بھی ایک شہید کا باپ اور ایک شہید کا ماموں ہوں۔ اجون خان نے ایک گہری سانس لی اور ان کا اگلا جملہ تھا “ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں”۔
اجون خان نے جس وقت میری کال اٹینڈ کی وہ اس وقت بھی آرمی پبلک اسکول کے سامنے سڑک پر احتجاج کررہے تھے احتجاج کی وجہ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ شہدا اے پی ایس فورم کے مطالبے پر دو روز قبل انتظامیہ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ سانحہ اے پی ایس کی برسی پر مقامی سطح پر عام تعطیل کا اعلان کیا جائے گا لیکن انتظامیہ نے یہ وعدہ پورا نہیں کیا فورم نے برسی کے موقع پر دعائیہ تقریب میں وزیراعظم پاکستان اور کور کمانڈر پشاور کی شرکت کا بھی مطالبہ کیا تھا لیکن ان کا یہ مطالبہ بھی پورا نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ان افراد سے ہمیں کچھ نہیں چاہیے تھا بس ہم یہ چاہتے تھے کہ یہ آتے تو ہم ان کے سامنے اپنا انصاف کا مقدمہ رکھتے۔
میں نے اجون خان سے جب باذل کے پوچھے گئے سوال کا جواب جاننا چاہا تو انہوں نے بتایا کہ احسان اللہ احسان کے فرار کے خلاف ان کی اہلیہ شہانہ خان سمیت دیگر شہید بچوں کے والدین نے 13 فروری 2020 کو چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے نام ایک درخواست دی تھی، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ احسان اللہ احسان کے فرار کے ذمے دار افراد کو عدالت میں طلب کرکے یہ پوچھا جائے کہ ریاست کیسے 144 بچوں سمیت 148 افراد کے قتل میں ملوث شخص کو قانون کے کٹہرے میں لانے میں ناکام رہی۔
اجون خان کا کہنا تھا کہ ان کی درخواست جب سے ہی ملک کی سب سے اعلی عدالت میں زیر التوا ہے اور دوسری طرف اس واقعے کی تحقیقات کے لیے بننے والے جوڈیشل کمیشن کا بھی ایک سال سے کوئی اجلاس نہیں ہوا ہے۔ ان سمیت شہدائے اے پی ایس کے والدین پچھلے 8 سال سے انصاف کے لیے دربدر بھٹک رہے ہیں۔
اجون خان سے گفتگو کے بعد اب میری ہمت ہی نہیں پڑ رہی کہ یہ ساری باتیں جنت میں شہدا گروپ کو بتاسکوں سوچ رہا ہوں گروپ ہی لیفٹ کردوں۔