تحریر: جمشید منیر
سال 2020 کا آغاز ہے۔ دنیا کے افق پر سورج روز کی طرح طلوع ہوتا ہے۔ اسی سال کے ابتداء میں اسلامی جہوریہ پاکستان کی سرزمین پر اختتام ہوتا ہے ڈرامہ ‘میرے پاس تم ہو’۔
پاکستانی میڈیا پر ریٹینگ جاری ہے۔ اگلے ویک کی آخری قسط آن آئیر ہونے جارہی ہے۔ آخری قسط کے آتے ساتھ ہی ایک تہلکہ خیز جنگ میڈیا پر جاری ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ میرا جسم میری مرضی مارچ منظر عام پر آتا ہے جس کے آتے ہی ڈرامہ میرے ‘پاس تم ہو’ منظر عام سے غائب ہوجاتا ہے۔
دنیا کے افق پر روز اسی طرح سورج طوع ہورہا ہوتا ہے کہ اسی اثناء میں کورونا جیسی عالمی وباء اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرزمین پر اپنے قدم جما دیتی ہے۔ ایک پینڈیمک اٹیک گوکہ تمام عالم گھروں میں مقید کردیا گیا۔ اس کے ساتھ زندگی کو گزارنے کے لیے مختلف راستے تلاش کیے جانے لگے۔
سب سے بڑا تفریح کا ذریعہ بنا الیکٹرانک میڈیا، شوشل میڈیا۔ یہ سب تفریحات اینڈرائیڈ گیجٹس سے پوری کی جانے لگیں۔ معمول سے زیادہ وقت ٹی وی، فونز پر گزرنے لگا۔ زندگی کا مومینٹم ایک دم بدلا۔ جہاں سال میں لوگ کوئی ایک ڈرامہ مقبولیت کی وجہ سے دیکھتے وہیں ایک دن میں لوگوں کا معمول بنتا گیا۔ پاکستانی میڈیا جو گزشتہ کچھ عرصے ترقی کے راستے پر گامزن رہا، نے ایسے ڈرامے متعارف کروائے جو ریٹینگ کے نام پر ہمارے معاشرے کی تباہی کا سبب بننے لگے۔ میرے پاس تم ہو سے خدا اور محبت تک کا سفر۔
معاشرے کے صرف ان پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے جو معاشرے میں بے حیائی پھیلا رہے ہیں ناکہ خیر کا کام کر رہے ہیں۔ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری آج کے جس دور کی عکاسی کر رہی ہے اس میں ساس بہو کے جھگڑے، خلع، طلاق جیسے موزوں دکھاتی ہے۔ نہ صرف حساس معاشرتی پہلو دکھائے جارہے ہیں بلکہ عورت کے لباس کو بنیاد بنا کر ڈھکے چپھے انداز میں بری اور اچھی عورت کی تفریق کا تصور دکھایا جارہا ہے۔ گوکہ لاک ڈاؤن میں تفریح کے نام پر دیکھے جانے والے ڈرامے ہماری نوجوان نسل کے لیے مثبت پیغام سے خالی رہے۔
تاریخ کے ادوار سے پرانے ڈراموں کا موازنہ آج کے دور سے کیا جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ آج کے ڈراموں نے مقصدیت سے بھرے ڈراموں کی جگہ لے لی ہے۔ کہاجاتا ہے پاکستانی ڈراموں کی ابتداء اس بنیاد پر کی گئی کہ انڈیا جیسا ملک ہمارے ڈراموں سے سیکھے گا۔ جو ڈرامے شائقین سانس روک کر دیکھا کرتے تھے۔ لیکن آج کے ڈراموں کی ڈیلینگز مارکیٹنگ ڈیپارٹمیبٹ پہلے سے ہی طے کرلیتاہے۔ جہاں نیٹ فلیکس اور زی فائیو جیسی ایپس متعارف ہوئیں وہاں بھی ان ڈراموں کی ریٹنگز میں زرا برابر کمی نظر نہیں آئی۔ سٹارپلس، سونی انٹرٹینمنٹ جیسے چینلز کی بندش تو کی گئی لیکن پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری نے انڈیا کے ڈراموں کی نقل تیار کی۔ ان کے ڈراموں جیسی عکس بندی شروع کردی۔ جہاں سے پاکستانی ڈراموں کے ارتقاء کا دور شروع ہوا۔ اب ہمیں سٹارپلس کی ضرورت نہیں رہی اس کی ضرورت اب ہمارے پاکستانی ڈرامے پورا کرتے نظر آتے ہیں۔ جہاں پاکستانی ڈراموں پر تنقید، بحث و مباحثے شروع ہوئے وہیں ان ڈراموں کی ریٹینگ میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ کیونکہ پاکستان کی اکثریت آبادی نے ساس بہو جھگڑے، عشق و عاشقی، طلاق حیسے ڈراموں کو پسند کیا۔ پیارو محبت اور عشق و عاشقی پر ڈراموں کا ٹرینڈ سیٹ ہوگیا۔ پاکستانی چینلز کے تمام ڈرامے اپنے اندر یکسانیت کو لیے ہوئے ہیں۔ فلمیں نہ دیکھنے کی کمی ان ڈراموں سے پوری ہونے لگی۔ تفریح کا مرکز یہ ڈرامے بن گئے۔ گوگل سرچ پر سال 2020 میں سب سے زیادہ ڈرامے دیکھے گئے۔
گوکہ ایک بے حیائی کا کاروبار چل نکلا۔ جس کی روک تھام کے لیے پیمرا کو کھلے الفاظ میں خطوط لکھے جاتے رہے۔ جس پر کئ بار ایکشن بھی لیا جاتا رہا ڈرامہ انڈسٹری کے پروڈیوسرز اور ڈاریکٹرز اور رائٹرز کو سکرپٹ پر نظر ثانی کا پابند کیا جاتا رہا۔ لیکن مدینہ جیسی ریاست پر کوئی ٹھوس اقدام نہیں لیا جاتا۔ ناکہ آئندہ آنے والے ڈراموں کا مواد بدلا ہے۔
ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی قوم کی حیثیت سے مغربی تہذیب کے غلام بن چکے ہیں۔ ہمیں ٹماٹر پسند نہیں ہم کیچپ کے ذائقے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہمیں خالص دودھ کی پہچان نہیں رہی پاؤڈر ملے دودھ کی کافی کے عادی ہوچکے ہیں۔
ضرورت ہے اس امر کی ہے کہ اقبال کے شاہین کوجاگنا ہوگا۔ تب ہی مدینہ جیسی فلاحی ریاست ممکن العمل ہوسکے گی۔ ورنہ ترقی سے تنزلی کی طرف ہم بہت تیزی سے جارہے ہیں اور ایک دن ہم مغرب میں غروب سورج کی طرح خود بھی زوال کے گڑھوں میں جاگریں گے ۔پھر ہم بانی قائداعظم کا بنایا پاکستان بچا نہیں پائیں گے۔