اسلام آباد: وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے بھارت سرکار کے منفی عزائم اور علاقائی سلامتی کو درپیش خطرات کے حوالے سے اہم بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہم بھارت کی ٹیرر فنانسنگ کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھائیں گے۔ بھارت کی مقبوضہ کشمیر پالیسی بری طرح ناکام ہوئی، کشمیری قیادت، بھارت سرکار سے نالاں دکھائی دے رہی ہے۔ کشمیری رہنماؤں نے وزیر اعظم مودی کے ساتھ ہونیوالی حالیہ ملاقات میں 5 اگست 2019 کے یک طرفہ اور غیر آئینی اقدامات پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ بی جے پی سرکار نے کرونا وبا کو جس طرح مس ہنڈل کیا اس کے باعث ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ بھارت اپنے اندرونی معاملات سے توجہ ہٹانے کیلئے اس قسم کے ناٹک رچاتا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم سامنے آنیوالے حقائق سے پاکستانی قوم اور عالمی برادری کو آگاہ کریں۔ قبل ازیں بھی بھارت کی دہشتگردی کے واضح ثبوت ڈوزیر کی صورت میں اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے سامنے پیش کر چکے ہیں۔ دنیا آج دہشت گردی کے خلاف صف آراء ہے اور دنیا دہشتگردی کی مالی معاونت کی بیخ کنی چاہتی ہے۔ یہ فیٹف کے مقاصد میں بھی شامل ہے اور دنیا کا مسمم ارادہ بھی یہی ہے، جوہر ٹاؤن لاہور میں ہونیوالے دہشتگردی کے واقعہ کی تحقیقات میں سامنے آنے والے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر اب پاکستان یہ توقع کر رہا ہے کہ دنیا، بھارت کی ا س ٹیرر فنانسنگ کا نوٹس لے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بارڈر فنسنگ کی ہے – ہم نے اپنے قبائلی علاقوں کو دہشت گردوں سے صاف کیا ہے، ہم نے وہاں ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا ہے۔ ہم نے ٹیرر فنانسنگ کی روک تھام کیلئے قانون سازی کی ہے، ہم نے اینٹی منی لانڈرنگ اقدامات اٹھائے ہیں۔ ہم ایک عرصہ سے افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے آ رہے ہیں اور ہم افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کے خواہشمند ہیں، اس مقصد کیلئے ہمیں عالمی برادری کی مدد درکار ہو گی۔ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کیلئے، ایک مقررہ مدت اور جامعیت کا حامل، ویل ریسورسڈ منصوبہ تشکیل دیا جانا چاہیئے اور اسے افغان امن عمل کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ اگر ہم اپنے شہروں اور شہریوں کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ پاکستان علاقائی روابط کا فروغ چاہتا ہے تاکہ ملک میں سرمایہ کاری آئے اور خطے میں تعمیر و ترقی کا دور دورہ ہو۔ اگر افغانستان میں اس منفی سوچ کے ساتھ بدامنی پھیلائی جاتی رہی کہ پاکستان” ٹو فرنٹ صورت حال میں الجھا رہے تو یہ عالمی مقاصد کے منافی ہو گا، دنیا کو اس صورت حال کا نوٹس لینا چاہیے۔