جونیئر بھٹو سے ملاقات کا احوال

0
48

تحریر: مقبول خان

وہ 29 جولائی کی ایک ابر آلود شام تھی۔ جب ہم اپنے ایک دوست کے ہمراہ شہید بھٹو کی رہائشگاہ 70 کلفٹن کے سبزہ زار پر موجود تھے۔ یہاں نیشنل میڈیا کے لوگ کم اور یو ٹیوبرز اور ویب سائٹس، ویب چینلز کے لوگ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ پرنٹ، الیکٹرونک اور ڈیجیٹل میڈیا کی موجودگی کی بڑی تعداد کی موجودگی کی وجہ بیشتر لوگوں کا یہ گمان تھا کہ ذوالفقار جونیئر نئی پارٹی کا اعلان کر نے والے ہیں۔ لیکن جونیئر بابا کے قریبی ساتھی، معروف لکھاری اوردست راست اصغر دشتی نے یہ اعلان کیا کہ یہ پریس کانفرنس لیاری کے متاثرین کے حوالے سے ہے جس سے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر خطاب کریں گے۔ جہاں ایک سانحہ کی وجہ سے 27 افراد متاثر ہوئے جبکہ ایک سو سے زائد لوگوں کو نوٹس جاری کر دئے گئے ہیں کہ مخدوش اور شکستہ عمارتوں کو خالی کر دیں۔ جبکہ ان کی رہائش کا کوئی انتظام نہیں کیا جارہا ہے۔ اس طرح لیاری کا یہ بحران سنگین ہوتا جارہا ہے۔

ذوالفقاعلی بھٹو جونیئر کی پریس کانفرنس ختم ہونے کے بعد بیشتر صحافی حضرات تو سبزہ زار پر رکھے ریفریشمنٹ سے لطف اندوز ہونے کے لئے چلے گئے۔ تاہم مختصر تعداد میں صحافی اور یوٹیوبر جن کے ساتھ جونیئر بابا کی ملاقات طے تھی، ہماری جونیئر بابا کے ساتھ ملاقات جناب اصغر دشتی سے دوست کے تعلقات کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکی۔ طے شدہ ملاقات کرنے والوں کو منتظمین نے جونیئر ذوالفقار علی بھٹو کے عقب میں چلنے کا کہا۔ جہاں منتظمین نے جونیئر بابا کے کے علاوہ سب کو مرکزی دروازے پر روک لیا گیا۔ چند لمحوں کے بعد طے شدہ ملاقات کر نے والوں کو باری بای باری مرکزی ہال میں بٹھا دیا گیا۔ ہم بھی اپنی باری پر مرکزی ہال میں داخل ہوئے، اور ایک صوفے پر بیٹھ گئے۔

یہ مرکزی ہال وہی جگہ ہے جہاں شہید بھٹو اور بے نظیر بھٹو شادی سے قبل پارٹی عہدیداروں ور صحافیوں سے ملاقات کرتی تھیں۔ کچھ دیر بعد مرکزی ہال میں مہمانوں کے لئے پانی اور ریفریشمنٹ پیش کیا گیا، لیکن وہاں موجود بیشتر افراد نے اس پر توجہ نہیں دی۔ مرکزی ہال میں جہاں شہید بھٹو کی یادگار تصاویر لکڑی کے فریم میں دیواروں پر آویزاں تھیں، وہاں ایک بلند میز پر بھٹو خاندان کا شجرہ نسب میں ایک لکڑی کے فریم میں رکھا ہوا تھا۔ اس شجرہ نسب کی خاص بات تھی کی یہ اردو میں تحریر تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ قومی زبان میں ہونے کی وجہ سے اسے وہاں آنے والے تمام قومیتوں کے لوگ اسے پڑھ اور سمجھ سکیں۔

اس دوران جونیئر بھٹو صحافیوں اور یوٹیوبر سے ملاقات کے لئے مختص کمرے میں موجود تھے۔ جناب اصغر دشتی اپنے رفقاء کار کے ذریعہ مرکزی ہال میں موجود لوگوں کو باری باری ملاقات کے لئے بھجوارہے تھے۔ دوست اور ہمیں بھی ملاقات کے لئے اس کمرے میں بلالیا گیا۔ ذوالفقار جونیئر کے برابر والے صوفے ایک خاتون یوٹیوبر تشریف فرما تھیں۔ان کی طویل اور لا یعنی گفتگو سے جونیئر بھٹو کے چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ ناگواری کے تاثرات کا اتار چڑھاو قابل دید تھا۔ اس دوران ہمارے دوست نے سوشلزم کے حوالے سے جونیئر بھٹو کو اسٹیل ٹاون کے مکینوں کو در پیش مسائل اور بنیادی شہری سہولتوں کے فقدان کے باعث علاقہ مکینوں کی زندگی اجیرن ہونے اور اسٹیل ملز ملازمین کے ریٹائر اور بر طرف کئے گئے ملازمین کے واجبات کی عدم ادائیگی سے ملازمین کی زندگی پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کا زکر اختصار مگر موثر اور نپے تلے الفاظ میں کیا۔

ہمارے دوست نے جونیئر بھٹو سے علاقے کا دورہ کر نے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ میں اسٹیل ٹاون کے مکینوں کی حالت زار کی ترجمانی کر رہا ہوں۔ جونیئر بابا نے دوست کی اسٹیل ٹاون کے مکینوں کے مسائل اور ریٹائرڈ برطرف ملاززمین کی بیان کردہ پریشانیوں اور مشکلات کو توجہ سے سنا اور اصغر صاحب کو نوٹ کراتے ہوئے وہاں کے مکینوں اور سابق ملازمین کے مسائل سے ذاتی طور پر آگاہ ہونے کے لئے علاقے کا دورہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

اس سے قبل سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے اور شہید میرمرتضیٰ بھٹو کے صاحب زادے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے رہائش گاہ 70 کلفٹن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اسٹیبلشمنٹ کی کوئی سپورٹ نہیں۔ انہوں نے ہمارے خاندان کے ساتھ بڑی زیادتیاں کی ہیں، ہمشیرہ فاطمہ بھٹو بھی پاکستان آرہی ہیں، ان کے ساتھ پارٹی کا اعلان کروں گا، پیپلز پارٹی ہائی جیک ہوچکی ہے، یہ پیپلز پارٹی وہ نہیں جو میرے دادا ذوالفقار علی بھٹو اور والد میر مرتضیٰ بھٹو شہید کی تھی۔ ہم زرداری لیگ کو مسترد کرتے ہیں، پی پی کے ساتھ کبھی کام نہیں کریں گے۔ لیاری اور اپنے روایتی حلقے لاڑکانہ سے الیکشن لڑوں گا۔ لیاری کے لوگ مشکل میں ہیں، 150 عمارتیں سیل کردی گئی ہیں، بغدادی واقعہ کے متاثرین کیلئے یہاں موجود ہوں اور ان متاثرین کیلئے مانگ کر رہا ہوں، سندھ حکومت متاثرین کو گھر فراہم کرے، یہ لوگ بھیگ نہیں مانگیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وطن پرست اور سندھ پرست ہوں، خود مختاری ہونی چاہیے،بہم شہید ذوالفقار اور مرتضیٰ بھٹو شہید کے فلسفہ سے الگ نہیں ہو رہے، بلوچستان میں مظالم کی مذمت کرتا ہوں۔

پریس کانفرنس ختم ہونے پر مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے جونیئر بھٹو نے کہا کہ بلاول ہمارے کزن ہیں، ہم ان سے محبت کرتے ہیں، لیکن ان سے کوئی رابطہ نہیں۔ انہوں سوال کرنے والے سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے پاس بلاول کا فون نمبر ہو تو مجھے دے دیں۔

پیپلز پارٹی کے مستقبل کے حوالے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے پیپلز پارٹی کا اب کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ ریحام خان کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے ان کا نام تو سنا ہے، لیکن رابطہ نہیں ہے۔ مسکراتے ہوئے کہا کہ ان کی کتاب پڑھی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ابھی کسی جماعت کے ساتھ اتحاد پر غور نہیں کیا ہے، جب وقت آیا تو دیکھا جائے گا۔

پریس کانفرنس کے دوران حسن انتظامات کے لئے اصغر دشتی اور ان رفقاء مبارکباد کے مستحق ہیں۔ آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو کے اخبارات اور قومی الیکٹرہنک میڈیا نے اس پریس کانفرنس کو وہ اہمیت نہیں جو غیر جانبدرانہ صحافت کا تقاضا ہے، شاید میڈیا ہاوسز کی مصلحت یا مفادات اس کی وجہ ہوں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں