تحریر: پیر زادہ سلمان
اس دور کی، ہر دور کی طرح، خامیاں اور خوبیاں ہیں۔ چند خوبیوں میں سے ایک یہ کہ اکیسویں صدی میں نسل پرستی اور مرد راج جیسی برائیاں اور حقوقِ نسواں جیسے اہم موضوعات کی وجہ سے اب دنیا زیادہ محتاط اور با شعور ہو گئی ہے۔ اب آپ کسی کو کالا، موٹا کہنے سے پہلے اور عورتوں کے بارے میں بد زبانی یا ان کو چھیڑنے سے پہلے دس بار سوچتے ہیں۔ یہ ایک ستائش کے لائق بات ہے۔
لیکن جو خوں ریزی دنیا میں جاری ہے، جس کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں، اس پر پریس کلب کے دوستوں سے بحث کرتے ہوئے میرے ذہن میں ایک اور بات بھی آئی-اور وہ یہ کہ نسلیں تو ہوتی ہیں، قبیلے تو ہوتے ہیں، خانوادے تو ہوتے ہیں، اور اگر یہ سب ہوتے ہیں تو ان کی کچھ مشترکہ عادتیں بلکہ خصلتیں بھی ہوتی ہیں۔
کلچر کی تعریف یہ ہے کہ ایک گروہ کی ایسی خصوصیات جو اس گروہ میں مشترک ہوں۔ یعنی چین کے لوگ ایک خاص وضع کے کپڑے پہنتے ہیں، ایک خاص طرح سے کھانا کھاتے ہیں، ایک خاص زبان بولتے ہیں، خاص طرح کی موسیقی سنتے ہیں وغیرہ- یہ ان کی پہچان ہے۔ اس پہچان میں کچھ عادتیں، کچھ جبلتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر، ہندوستان میں مشرقی صوبوں کے لوگ چاول اور مچھلی شوق سے کھاتے ہیں اور شمالی حصوں کے لوگ روٹی کے بغیر کھانا مکمل نہیں سمجھتے۔
جب ہم کسی قوم کی خصوصیات بیان کر رہے ہوتے ہیں یا اس کا ازراہِ مذاق ذکر کر رہے ہوتے ہیں تو اس کے پیچھے اس قوم کی کلچرل تاریخ ہوتی ہے۔ یعنی پاکستان میں جو پانچ یا چھ بڑی زبانیں بولی جاتی ہیں (پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو، اردو اور سرائکی) ان سب کے بولنے والوں کی نسبت سے کچھ نہ کچھ مذاق اڑانےوالا مواد موجود ہے۔ اگر میں یہاں کسی ایک کے بارے میں کوئی چٹکلہ سنا دوں یا شگوفہ چھوڑ دوں تو آپ مجھ پر نسل پرست ہونے کا با آسانی اور بہ صد شوق الزام لگا دیں گے۔
مگر غور تو کیجے، اگر ساڑھے چار سو برس پہلے شیکسپیئر کسی قوم کے ایک فرد کا ایسا کردار لکھتا ہے جس سے اس کا لالچی، بخیل اور متعصب ہونا ظاہر ہو تو آپ کیا سمجھیں گے۔۔۔ مان لیجے کہ قبیلوں یا قوموں کی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں اور جن باتوں کو آج برا سمجھا جاتا ہے ان سے باہر آنے کے لیے یا انہیں ترک کرنے کے لیے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔