تحریر: ڈاکٹر عتیق الرحمان
رائے کی کثرت ہے لیکن صائب لرائے کی شدید قلّت۔ انفارمیشین کا طوفان، انسانی ذہن میں اعتدال کو نگل چکا ہے۔ اور اوپر سے مسئلہ یہ نہیں کہ ہر بندے کی اپنی رائے ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی رائے کو آپ پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کی مختلف ایپس کا، لے لیں۔ موبائل پر 99 فیصد اشتہارات مصنوعی ذہانت کی مختلف اور یوزلیس ایپس کے بارے میں ہیں اور اگر آپ کا ہاتھ غلطی سے ایس پر لگ جائے تو ایپ اپنا سیاپا لے کے بیٹھ جاتی ہے کہ مجھے اپنا لو۔ اگر آپ سبسکرائب کر لیں تو اگلی منزل پرو کی ہوتی ہے۔حد ہے یار۔
دنیا میں اس وقت تقریبا 9 ارب موبائل ہیں اور ہر موبائل دوسرے موبائل سے نکلنے والے اپنے ذہن سے ہم آہنگ گیان کو جپھہ مار کے بیٹھا ہے۔ سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ ہر بندہ دن میں 144 بار موبائل چیک کرتا ہے یا اپنے موبائل کی طرف متوجہ ہوتا ہے یا رائے کا اظہار کرتا ہے۔ یعنی ہر دس منٹ بعد ہمیں ‘وٹامن موبائل’ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ تقریبا آکسیجن کی مقدار کے برابر بنتی ہے۔ یہ پانی کے استعمال سے کم از کم 500 فیصد زیادہ ہے۔ اس کثرت اور سرعت سے انسانی کے دماغی خلیے تبدیل ہو رہے ہیں کہ ان کے رُخ کا اندازہ نہیں ہو پا رہا کہ تبدیلی اوپر، نیچے، دائیں، بائیں کس طرف ہو رہی ہے۔ یہ واقعی خطرناک صورتحال ہے۔
باشعور لوگ، اگر کچھ بچ گئے ہیں تو ان کو اس صورتحال میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ تقریبا ہر تیسرا بندہ ذہنی اضطراب کا شکار ہے اور ذہنی مریض بننے کے قریب ہے۔
اسی طرح کسی ایک ایشو پر، لاکھوں نہیں، کروڑوں رائے سامنے آتی ہیں اور پھر مسئلہ کہیں گم ہو جاتا ہے، رائے آپس میں گتھم گتھا ہو جاتی ہیں اور مسئلہ، مسائل کی شکل لے لیتا ہے اور اس طرح یہ انبار بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ صیح اور غلط انفارمیشین کو سمجھنے کے لئے پانی کی مثال لیتے ہیں۔
صاف پانی میں اگر سیورج کا پانی شامل ہو جائے تو پانی قابل استعمال نہیں رہتا۔ انفارمیشین کی بھی یہی صورتحال ہے اور صیح انفارمیشین کے اندر اگر غلط انفارمیشن مل جائے گی تو مصنوعی ذہانت جو پراڈکٹ بنائے گی وہ فالٹی پراڈکٹ ہوگی،جو کہ تباہی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
خبر کی سرخی یا تھمب نیل کی تخلیق بالکل بیوٹی پارلر کی طرح کی جاتی ہے، یعنی حقیقت سے تھوڑا بہت بھی قریب نہیں ہوتی۔
اب موبائل سے اجتناب کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی البتہ سکڑتے اور بیمار یوتے جسم جہاں پڑے ہیں، وہیں پر ایڈجسٹ ہونے کے مختلف طریقے بتا رہے ہیں، ایکسر سائز کرسیوں اور بیڈ پر ہی تجویز ہو رہی ہیں۔