تحریر: عاجز جمالی
گذشتہ ڈھائی برسوں کے دوران سندھ کی جانب ملک کے وزیر اعظم عمران خان یا ان کی وفاقی حکومت کا رویہ کیسا رہا؟ کچھ ریکارڈ کی باتیں دُہراتا چلوں۔ پھر پڑھنے والے فیصلہ کریں کہ آخر سندھ کے لوگ عمران خان کو اپنا وزیر اعظم کیوں مانیں؟
وزیر اعظم بننے کے کچھ ہی دنوں بعد وزیر اعظم نے فرمایا تھا کہ خ سندھ کے لوگ کراچی پر حکمرانی کرتے ہیں۔ اپنی حکومت کے قیام کے چھٹے مہینے میں ہی وزیر اعظم نے کہا کہ ہم سندھ کی حکومت کو نہیں چھوڑیں گے۔ وفاق سندھ میں آئینی راستہ اختیار کرے گا۔
سندھ کی پی ٹی آئی کبھی سندھ میں گورنر راج کا مطالبہ کرتی رہی تو کبھی یہ کہا گیا کہ سندھ میں آئین کا خصوصی آرٹیکل نافذ کیا جائے۔ وفاقی وزیر فروغ نسیم نے پھر یہ بیان دیا کہ سندھ حکومت کو ختم کرکے کراچی کا کنٹرول وفاق کے حوالے کیا جائے گا۔
عمران خان حکومت کے پہلے بجٹ میں ہی وفاق نے سندھ کے کئی میگا پراجیکٹس ختم کیئے گئے اور بے نظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کے پیسے روک لئے گئے۔ وزیر اعظم نے اپنے پہلے سال میں ہی اعلان کیا کہ کراچی میں رہنے والے افغانیوں کو شناختی کارڈز جاری کیئے جائیں گے۔ وفاق سے ملنے والے فنڈز میں پہلے سال سے لے کر آج تک کٹوتیاں جاری ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ میں مقرر سندھ کے حصے سے ہر تیسرے ماہ کٹوتی کی جاتی ہے۔
عمران خان نے سندھ اور پیپلز پارٹی کو ایک سمجھتے ہوئے وفاقی اداروں کو براہ راست سندھ میں مداخلت کرنے کی درخواست دی۔ فوج کے اداروں کو سندھ کے ترقیاتی منصوبوں میں شامل کرکے ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی کو ڈرانے میں تو کامیاب ہوا ہوگا لیکن سندھ کے منصوبے این ڈی ایم اے۔ ایف ڈبلیو او جیسے اداروں کے حوالے کیئے گئے۔
سندھ کے تین بڑے اسپتالوں کے ساتھ ساتھ نیشنل میوزیم کا کنٹرول بھی وفاق نے سنبھال لیا۔ دیگر صوبائی اداروں پر بھی قبضے کی کوشش جاری ہے۔ سندھ سے پی آئی اے کے دفاتر بند کر دیئے گئے۔ پی آئی اے کے تمام ملازمین کو زبردستی اسلام آباد منتقل کیا گیا۔ پاکستان اسٹیل ملز کو بند کردیا گیا۔ وفاقی اداروں سے سندھ کے ہزاروں لوگوں کو برطرف کیا گیا ہے۔
گذشتہ برس پہلے کوسٹل ڈولپمنٹ اتھارٹی اور پھر سندھ کے جزائر پر قبضہ کرنے کے لئے آئی لینڈ ڈولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس جاری کردیا گیا۔ سندھ بھر میں ان آرڈیننس کے خلاف احتجاج ہوتا رہا اور سندھ اسمبلی میں آرڈیننس کے خلاف قرارداد منظور ہونے کے با وجود وزیر اعظم کہتے رہے کہ جزائر پر ہر حال میں شہر بنائیں گے۔
سندھ کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں زبردستی اوپن میرٹ داخلوں کے لئے پی ایم سی آرڈیننس جاری کیا گیا پہلے سال کے داخلوں میں ہی سندھ کے امیدواروں کے ساتھ نا انصافی ہوئی لوگ عدالت میں چلے گئے۔ تھر میں سندھ کے کوئلے پر بجلی کی جب پیداوار شروع ہوئی تو افتتاح پر کوئی وفاقی وزیر نہیں آیا لیکن وزیر اعظم نے مبارک باد دینا بھی گوارا نہیں کیا۔
سندھ پولیس کے دو نوجوانوں نے کراچی اسٹاک ایکسچینج پرحملہ ناکام بنایا ملک کے وزیر اعظم نے سندھی پولیس اہلکاروں کو مبارک باد دینا یا ہمدردی کے دو بول بولنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ سندھ کے ثقافتی دن پر دیگر ممالک کے حکمران تو سندھی قوم کو مبارک باد دیتے ہیں لیکن اپنے وزیر اعظم کا روایتی پریس رلیز بھی نہیں آتا۔ ویسے تو اور بھی بہت ساری باتیں یاد دلا سکتا ہوں مضمون شاید اور طویل ہوجائے۔ اب آتے ہیں وزیر اعظم کے آج کے خیالات پر۔
وزیر اعظم نے ساہی وال میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ سندھ ہمارا صوبہ نہیں سندھ پیپلز پارٹی کا صوبہ ہے اس بات کو لے کر پی ٹی آئی کے حامی تو یہ کہتے ہیں کہ چونکہ چنانچہ در اصل وزیر اعظم کا مطلب یہ تھا۔ مطلب جو بھی تھا لیکن جب ملک کا وزیر اعظم یہ کہے کہ فلاں صوبہ میرا نہیں تو ایک لکیر کھینچ لیتا ہے۔ ایسی لکیر جو نفرتوں کی سرحدوں کو مضبوط کرتی ہے اور عمران خان کا ڈھائی سالہ دور اقتدار بتاتا ہے کہ ان کی باتوں سے سندھ میں نفرتوں کی سرحدیں آپ نے بڑھا لی ہیں۔ آپ خود ہی سندھ کو پیپلز پارٹی کی گود میں ڈال رہے ہیں اور آپ خودی وفاق کو کمزور کر رہے ہیں قوم پرستی کو ہوا دے رہے ہیں۔
جناب وزیر اعظم آپ خود ہی خود کو پورے ملک کے بجائے مخصوص وزیر اعظم قرار دے رہے ہیں۔ ان سب باتوں کا احساس تب ہوگا جب آپ حکومت میں نہیں ہوں گے۔