تحریر: رابعہ خان
موٹر سائیکل پر سوار اس خوبرو نوجوان کی دھاتی ڈور سے گردن کٹ چکی تھی، سفید لباس تو تھا مگر یہ خوبرو خون سے لت پت سرخ رنگ میں نہا چکا تھا، ایک وقت کے لئے اٹھ کھڑا ہو کر معاملہ سمجھنے کی کوشش کی کہ آخر یہ ہوا کیا ہے اس کہ ساتھ؟
روڈ پر سینکڑوں ملی لیٹر خون بہہ چکا تھا بیچ روڈ پر کوئی مدد درکار نہ تھی۔ اس نوجوان کی موت کا زمہ دار کون ہے میں، آپ یا ہمارا سسٹم؟
افطاری کا سامان لینے نکلا تھا یہ خاندان کا لگتے جگر اور خون سے رنگا خاموش آواز واپس لوٹا۔
آخر کیا گزری ہوگی اس کے پیچھے رہ گئے ان والدین پر؟ کہ پیدا ہونے سے لے کر نوجوان ہونے تک پرورش کی پیار کیا اس کی آواز کانوں میں گونجتی رہی ہے اور ایک روز اسی کا بوڑھے کندھوں پر جنازہ اٹھنا تھا۔ اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس نوجوان کی والدہ صدمہ برداشت نہ کرتے ہوتے آج وہ بھی دنیا فانی سے رخصت ہوگئی۔ آج تڑپتی ماں چل بسیں نہ سہہ پائی بیٹے کی جدائی کا غم۔
وہ بیٹا جس کی عید کے تیسرے روز شادی تھی اور شادی کی یہ خوشی ماتم میں بدل گئی۔
کیا ہمارے معاشرے میں ایک انسان کی یہی قیمت باقی رہ گئی ہے کہ جان جاتی ہے کسی کی تو جائے مگر شوق، کاروبار، غلط عادت سےنہ جائے۔ اسلامی معاشرے میں بھی انسان اس قدر بے قدرا۔ کوئی پتنگ کی ڈور سے مر رہا ہے تو کوئی ڈاکوں کے ہاتھوں جان گوا رہا ہے مگر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔
کوئی سسٹم پر بات کرنا نہیں چاہتا، کوئی غلط کو غلط کہنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ یہ جو آلہ دھاتیں بنا رہے ہیں، پتنگ بنا رہے ہیں، حرام سے پیٹ بھرتے نہیں تھک رہے ہیں، کوئی کیوں نہیں ان کو بند کروانے کی ہمت رکھتا۔ جب تک سسٹم نہیں بدلے گا تب تک اسی طرح بوڑھے ماں باپ کے جگر گوشے ان سے بچھڑتے رہیں گے۔ 75 برس گزر گئے لیکن سب کہ بس دکھاوے کے طور پر کہ ہم کاروائی کر رہے ہیں اور اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بننا بس۔ برائی کرنے والوں پر آگ نہیں پھٹتی اور معصومیت پر ظلم ختم نہیں ہوتے۔
جنہیں یہ سب روکنا تھا وہ تو بک چکے ہیں سسٹم کے ہاتھوں طاقت کے ہاتھوں کاش امیروں کے کتوں کے برابر ہی مگر تھوڑی اہمیت تو ہوتی کہ اتنے انصاف کا حق وہ عام انسان بھی رکھتا۔